اسلام آباد: (سچ خبریں) مخصوص عہدوں کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر بحث کے دوران حکومت طویل مدتی پنشن بل کو روکنے کے لیے ریٹائرمنٹ کی اوسط عمر کو 5 سال کم کرکے 55 سال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی افسر نے بتایا ہے کہ یہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پیش کردہ تجاویز میں سے ایک ہے اور وفاقی حکومت فی الوقت اس پر غور کررہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے گزشتہ سال ریٹائرمنٹ کے فوائد کی ادائیگی پر آنے والے اخراجات میں عارضی تاخیر کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 2 سال بڑھا کر 62 سال کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس کی مخالفت کی تھی۔
فی الحال، سرکاری ملازمین کو 60 سال کی عمر میں آخری بنیادی تنخواہ کے مساوی یا بعض حالات میں زیادہ سے زیادہ 30 سالہ سروس کی بنیاد پر پنشن دی جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ایک اجلاس میں وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پنشن اسکیم میں ترمیم سے متعلق 27 مئی اور 13 جون کی ہدایات، مستقبل کے لائحہ عمل اور پے اینڈ پنشن کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
فیصلے پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے اور کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کئی اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی مشاورت درکار ہونے کے باعث اس میں مزید وقت لگے گا۔
ریٹائرمنٹ کی عمر میں 5 سال کمی کی صورت میں پنشن کی ادائیگی میں کمی لائی جاسکتی ہے ، اس طرح اس فیصلے کو تمام اداروں میں یکساں طور پر نافذ کیا جاتا ہے تو پنشن اخراجات سالانہ 50 ارب روپے تک کم ہو سکتے ہیں۔
حکومت تجویز پر عملدرآمد کی صورت میں پڑنے والے ابتدائی بوجھ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مرحلہ وار نفاذ پر غور کرے گی۔ اس سے سرکاری شعبے کے تجربہ کار اور ہنر مند ملازمین کی نجی شعبے میں منتقلی میں بھی سہولت مل سکتی ہے۔
اس وقت وفاقی پنشن بل ایک کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جس میں سول اور مسلح افواج کا حصہ بالترتیب 260 ارب روپے اور 750 ارب روپے ہے۔ سالانہ پنشن بل کے بڑھتے ہوئے بہاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے حال ہی میں مستقبل کے تمام سرکاری ملازمتوں کے لیے شراکت داری پر مبنی پنشن اسکیم متعارف کرائی ہے۔
اب جبکہ حکومت وفاقی ملازمین کے لیے اس طرح کی اسکیم متعارف کرانے اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اسے اپنانے کے قانونی اور مالی فوائد اور نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے تو حکومتی اداروں، ریگولیٹری اتھارٹیز، پروفیشنل کونسلز سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کردیں۔
اس صورت میں وفاقی حکومت ریٹائرمنٹ کے فوائد یا سبکدوشی پیکجز کی ادائیگی کی ذمے دار نہیں ہوگی اور ان اداروں کو معاشی ضروریات اپنے ذرائع یا بیرونی اختراعی اختیارات سے پوری کرنی ہوگی۔
وزارت خزانہ کے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک معروف مالیاتی ادارے نے تجویز کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں 5 سال کی کمی سے پنشن کے بجٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، متوقع فوائد میں پنش اخراجات میں کمی اور پنشن کی ادائیگیوں میں بچت شامل ہے۔
ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی کے ساتھ حکومت کو قلیل مدتی حساب کی بنیاد پر پنشن کی ادائیگی کی ضرورت ہوگی، جس سے ممکنہ طور پر طویل مدت کے لیے مجموعی پنشن کی ذمہ داری کم ہوجائے گی۔
اس کے علاوہ، ملازمین کو پہلے ریٹائر کرنے سے حکومت کو پنشن کی ادائیگیوں میں بچت ہوگی کیونکہ اس صورت پنشن کی ادائیگی کے سال کم ہوجائیں گے۔
یہ تجویز ممکنہ خامیوں سے پاک نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی کے نفاذ سے پیشگی اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے (بڑی تعداد میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں)، جیسے سبکدوشی پیکیجز یا ریٹائرمنٹ کے فوائد، جو ممکنہ طویل مدتی بچت میں سے کچھ کو کم کرسکتے ہیں۔
دریں اثنا، ریٹائرمنٹ کی کم عمر حکومت میں تجربہ کار انسانی سرمائے کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ممکنہ طور پر افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے نظام پر اضافی اثر پڑتا ہے۔
حکام نے بتایا کہ بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، سری لنکا اور حتیٰ کہ برونائی جیسے ممالک میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سے 58 سال جبکہ کچھ صورتوں میں 60 سال ہے۔
سرکاری تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق حکومت کے پنشن اخراجات چاہے وہ وفاقی ہوں، عسکری یا صوبائی، قابو سے باہر ہو رہے ہیں اور بیشتر سرمائے سے محروم ہیں اور 2011 میں 164 ارب روپے سے بڑھ کر 2021 میں 988 ارب روپے تک بڑھ چکے تھے۔
تحقیق میں پائیداری کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’ 10 سال کے دوران وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات (بشمول عسکری) میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب، صوبائی پنشن اخرات میں 7 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس، اسی مدت کے دوران ٹیکس آمدن صرف 2.7 فیصد بڑھی ہے۔