اسلام آباد(سچ خبریں) سلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےوفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی سپلائی چین متاثر ہوئیں، دنیا بھر میں پیداوار کم ہوئی ہیں. انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لاجسٹکس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا اور کنٹینرز کی قلت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ضروری اشیا کی قیمتوں کی بھی قلت دیکھی گئی انہوں نے کہا کہ 2 سال قبل مہنگائی کی شرح شہری علاقوں 15 فیصد اور دیہی علاقوں میں 17.8 فیصد تھی جسے حکومت کم کرکے بالترتیب 10 فیصد اور 9.1 فیصد پر لانے میں کامیاب رہی ہے.
انہوں نے بتایا کہ عالمی منڈی میں چینی 2018 میں 240 ڈالر فی ٹن تھی اور آگ 430 ڈالر فی ٹن ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کوکنگ آئل پر ٹیکس ریلیف دے گی اور 45 سے 50 روپے فی کلو اس کی قیمتیں کم کریں گے جس کے اخراجات حکومت اپنی جیب سے ادا کرے گی. وزیر خزانہ نے کہا کہ گندم کی حکومت کو لاگت 2040 روپے پڑ رہی ہے اور ہم اسے 1950 روپے میں فراہم کر رہے ہیں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حکومت 123 روپے فی لیٹر پیٹرول فراہم کر رہی ہے، واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ بھارت میں پیٹرول 250 روپے فی لیٹر مل رہا ہے اور خطے کے تمام ممالک سے ہم سستا پیٹرول فراہم کر رہے ہیں.
انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں 600 ارب پیٹرولیم لیوی کا ہدف ہے جس میں سے ہم نے ایک روپے بھی اب تک اکٹھا نہیں کیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت گھی پر سبسڈی فراہم کر رہی ہے، آٹے کو 1950 پر لے گئے ہیں، چینی 90 روپے کی کردی گئی ہے اور اس سے بڑا قدم ہم نے غریب عوام کو فوڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے. وزیر خزانہ نے کہا کہ انتظامی طور پر ہم مڈل مینز کو تلاش کرکے ان کے خلاف کارروائی کرنے لگے ہیں جو 300 سے 400 فیصد تک کا منافع کمارہے ہیں، یہ قابل قبول نہیں ادھر گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ لوگوں کی آمدنی مہنگائی کی نسبت 4 فیصد زیادہ بڑھی ہے ہماری معیشت میں جب جی ڈی پی کی گروتھ آتی ہے تو لوگ خریداری زیادہ کرتے ہیں۔
بزنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خسارا پورا کرنے کے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے یہی ہماری تاریخ ہے آئی ایم ایف کے پاس لوگ خوشی سے نہیں جاتے، آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو ان کی سخت شرائط بھی ماننی پڑیں گی. رضا باقر نے کہا کہ ایکسٹرنل اکاﺅنٹس بھی ایک وجہ تھی جس وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہمارے ایکسٹرنل ریزروز میں بھی بہتری آئی ہے اس وقت 20 بلین کے ایکسٹرنل ریزروز ہیں انہوں نے کہا کہ روشن ڈیجیٹل پاکستان میں تقریبا 2 لاکھ اوورسیز پاکستانیز اکاﺅنٹ کھول چکے ہیں ہماری ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.
گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ کورونا سے ہمارے ملک میں بہت نقصان ہو سکتا تھا ہم نے کورونا میں 430 ارب روپے نئی سرما یہ کاری کے لئے رکھے لوگوں کو 240 ارب روپے سستے قرضوں کی مد میں دیئے. وزیرخزانہ شوکت ترین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا سے صرف پاکستان نہیں دنیا بھر کی معیشت کو دھچکہ لگا مہنگائی کی وجہ سپلائی کا نہ ہونا ہے کورونا کی وجہ سے لاجسکٹ متاثر ہوا اوراشیا کی قلت پیدا ہوئی۔ شوگر2018میں 240اورآج 400ڈالر فی ٹن ہے.
انہوں نے کہاکہ کروڈ آئل کی قیمت میں بھی 18فیصد اضافہ ہوا۔ شوگر2018میں 240 اورآج 400 ڈالر فی ٹن ہے عالمی مارکیٹ میں چینی اب 430 ڈالرفی ٹن ہے. ادھر عوامی حلقوں نے وزیرخزانہ اور گورنراسٹیٹ بنک کے بیانات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے رکشہ ڈرائیور اسماعیل خٹک نے بتایا کہ وہ گریجویٹ ہونے کے باوجود رکشہ چلانے پر مجبور ہیں انہوں نے کہا کہ بھارت کا موزانہ کرتے ہوئے وزیرخزانہ بھارت کی مجموعی قومی آمدن اور فی کس آمدن کا ذکر کرنا بھول گئے جوکہ چھ ہزار نو سو بیس ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدن چار ہزار آٹھ سو ڈالر ہے اسی طرح بھارتی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے اگر وزیرخزانہ اور گورنراسٹیٹ بنک غیرت مند ہوتے تو اسی پر مستعفی ہوکر گھر چلے جاتے مگر یہ عام شہریوں کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں.
پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات کی طالبہ نمرہ حسن جوکہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک نجی کمپنی میں ملازمت بھی کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ فی کس آمدن ہو یا مجموعی قومی پیدوار اس کا زمینی حقائق سے کوئی واسط نہیں ہوتا پاکستان میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جن کی روزانہ آمدان ایک ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ دوسری جانب ہزاروں ڈالر فی کس آمدن والے بھی ہیں مگر اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے میں سب کو ایک صف میں شامل کردیا جاتا ہے .
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی رازکی بات نہیں کہ وزیرخزانہ ہوں یا گورنراسٹیٹ بنک ہمارے معاشی منیجرز آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے آتے ہیں چونکہ انہوں نے عمریں بیرون ممالک گزاری ہوتی ہیں انہیں زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہوتا اس لیے وہ اوٹ پٹانگ بیانات دیتے رہتے ہیں.