اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما جہانگیر خان ترین نے نئی سیاسی جماعت ’استحکام پاکستان‘ کی بنیاد رکھ دی۔
استحکام پاکستان کے نام سے نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر علیم خان نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ہم نے نئی جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا۔
علیم خان نے کہا کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں پارلیمان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہوں گے۔
لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین نے اپنے بڑے پن کے ذریعے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جہانگیر ترین کی سیاسی بصیرت سے ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ آج ہم نئی سیاسی جماعت ’استحکام پاکستان‘ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، اس موقع پر تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، سابق وفاقی وزیر عامیر کیانی، علی زیدی، فواد چوہدری، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس، فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، ہمیں نئی جماعت بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ سیاست میں آنے سے لے کر اب تک میرا مقصد ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے سیاسی سفر میں مجھے کئی لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، میں نے ان کے تجربے اور سیاسی بصیرت سے بہت کچھ سیکھا، میں کوئی روایتی سیاستدان نہیں ہوں، میں سیاست میں ایک مقصد کے ساتھ آیا اور اسی جذبے کے تحت پی ٹی آئی میں شامل ہوا۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ ہم پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وہ اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جن کی پاکستان کو ضرورت تھی اور ہے، اس لیے ہم نے پی ٹی آئی کو ایک مضبوط سیاسی قوت بنانے کے لیے دن رات محنت کی، 2013 کے بعد ہم نے پارٹی کے اندر ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا، یہاں پر بیٹھے سب لوگ اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں کچھ ایسی چیزیں آپ کے سامنے آئیں گی جن سے آپ کو علم ہوگا کہ ہم نے پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کس حد تک محنت کی، ہم نے یقینی بنایا کہ جب بھی الیکشن ہوں تو پی ٹی آئی اسے جیتے بلکہ اس پوزیشن میں ہو کہ ملک میں اصلاحات نافذ کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اصلاحات لانا ہمارا ایک بنیادی اصول ہے، اسی وجہ سے ہم سب لوگوں نے جدوجہد کی، بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، معاملات ویسے نہ چل سکے جیسا ہم چاہتے تھے، لوگ بد دل ہونا شروع ہوگئے، مایوسی پھیل گئی۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی کا منشور معیشت کو درست کرنا، دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا اور سب سے بڑھ کر احتساب کرنا تھا، ان ہی نعروں پر پارٹی وجود میں آئی اور ان ہی نعروں پر لوگوں نے اسے ووٹ دیا تھا، یہ سب نہ ہوسکا اور معاملات بگڑنے کی طرف چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اب 9 مئی کے واقعات نے پاکستان کی سیاست کو تبدیل کردیا، دل کی گہرائی سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور شرپسندوں کو انجام تک نہ پہنچایا تو پھر سیاسی مخالفین کے گھروں پر بھی حملہ قابل قبول سمجھا جائے گا اور ہم یہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ ہماری عزیز فوج کے افسران کے گھروں میں لوگ گھسے، ہمارے عظیم فائٹر پائلٹ ایم ایم عالم صاحب کا نمائش کے لیے رکھا جہاز جس نے دشمن کے خلاف زبردست کارروائی کی تھی، اس کو بھی جلادیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایک ہجوم کا سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی مثال قائم کرنا ہے کہ کل کو کوئی بھی ہجوم کسی کے گھر پر بھی حملہ کر کے ہمارے خاندانوں کو ہراساں کرے، کوئی بھی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند سال کے واقعات نے ہماری سیاست، معیشت اور معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، تشویشناک بات یہ ہے کہ اس صورتحال سے عوام کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں، ہم اس صورتحال کو بڑھاوا دینے کی اجازت نہیں دے سکتے، اس لیے آج ہم سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہتے ہیں، ہمارے ملک کو آج اس کی اشد ضرورت ہے کہ اس پر جتنے بھی زخم لگے ہیں، ہم اس پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں، پاکستان کو آج ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی اور سماجی تقسیم کو ختم کرے، اتحاد اور رواداری کو بڑھائے، ایسی قیادت چاہیے جو قوم کو امید کا قومی بیانیہ دے۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ اس وقت قوم کو سب سے زیادہ ضرورت اس امید کی ہے کہ ہماری قوم کے حالات بہتر ہوں گے، عوام کے حالات بہتر ہوں گے اور ہمارا ملک ساری دنیا میں اپنے صحیح مقام پر پہنچے گا، اس لیے ہم آج اپنی نئی جماعت کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں، ہمارا مقصد بڑا واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اس جگہ پر موجود تمام لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جائے، ہم سب سمجھتے ہیں اور اتفاق کرتے ہیں کہ ہماری سیاست کو ایک نئی سمت کی ضرورت ہے، ہمیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ ہمارا جمہوری نظام اس صورت میں ہی مضبوط ہوسکتا ہے جب حکومت اور اپوزیشن دونوں نہ صرف اپنی آئینی ذمے داریوں کو سمجھیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست، ملک طرز حکمرانی حکومت اور اپوزیشن دونوں اس کا حصہ ہیں، آنے والوں دنوں میں ہماری جماعت اور بھی ایسے لوگ شامل ہوں گے جن کی نہ صرف اپنے حلقوں میں عزت ہے بلکہ ان کا ووٹ بینک بھی مضبوط ہے، میں مشترکہ جدوجہد میں ہمارے ساتھ شامل ہونے والوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ہم اپنا اصلاحی ایجنڈا منظر عام پر لائیں گے، اپنے ساتھیوں کے سیاسی تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، میں پرامید ہوں کہ آنے والے الیکشن میں ہم بہتر سے بہترین نتائج حاصل کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اپنے ووٹرز کے مینڈیٹ کے ذریعے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں۔
جہانگر ترین نے کہا کہ ہم نے برآمدات کو بڑھانا ہے، آئی ٹی سیکٹر کو خاص طور پر اٹھانا ہے، ہماری زراعت میں بڑی جان ہے، کسان کو مضبوط کرنا ہے اور اپنے دیہات پر توجہ دینی ہے، اس جماعت کا مقصد نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمانی کرنا ہے۔
انہوں نے ہم خواتین، اقلیتوں اور محروم طبقات کے حقوق کا تحفظ کریں گے، معاشرے کے ان طبقات کی آواز بنیں گے جن کی آوازوں کو نہیں سنا جاتا، ہم ان افراد کے لیے کام کریں گے جن کی دیکھ بھال کرنا ریاست کی سب سے بڑی ذمے داری ہے، ہماری جماعت ترقی اور خوشحالی کی علامت ہوگی، ہم پاکستان کے عوام کی خواہشات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے مشن میں سرگرم سینئر سیاستدان جہانگیر خان ترین سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں نے ہاتھ ملا لیا تھا۔
لاہور میں ایک اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری، عامر کیانی، علی زیدی، عمران اسمٰعیل، محمود مولوی، فردوس عاشق اعوان، اجمل وزیر، نوریز شکور اور فیاض الحسن چوہان نے چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ اپنے نئے باس کو گلے لگایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی سیاستدان وہ تھے جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی ’عارضی وقفہ‘ لینے کا اعلان کیا تھا، تاہم محض چند ہفتوں بعد ہی وہ نئے سیاسی کیمپ میں باضابطہ طور پر داخل ہوگئے ہیں۔
پنجاب کے سابق وزیر تعلیم مراد راس (جنہوں نے چند روز قبل ایک اور سابق وزیر ہاشم ڈوگر کے ساتھ مل کر تقریباً 3 درجن سابق اراکین اسمبلی کی حمایت کے دعوے کے ساتھ ’ڈیموکریٹس‘ گروپ تشکیل دیا تھا) نے بھی نئی پارٹی میں اچھی پوزیشن ملنے کے وعدے پر جہانگیر ترین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
جہانگیر ترین کیمپ کے رکن عون چوہدری نے کہا کہ نئی پارٹی کا نام ’استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی)‘ ہوگا، ایک ذرائع نے بتایا کہ گروپ کے اراکین میں نام پر اتفاق رائے ہے لیکن آخری لمحات میں اس میں تبدیلی کا امکان بعید از قیاس نہیں ہے۔
پراپرٹی ٹائیکون علیم خان نے مبینہ طور پر آئی پی پی میں صدر کے عہدے پر اپنی نگاہیں جما رکھی ہیں جبکہ جہانگیر ترین اُس وقت تک اِس نئی پارٹی کے ’قائد‘ سمجھے جا سکتے ہیں جب تک کہ انہیں تاحیات نااہلی کے حوالے سے عدالت سے ریلیف نہیں مل جاتا۔
اس نئی پارٹی کو ’کنگز پارٹی‘ کہا جا رہا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں یہ پنجاب کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سابق پی ٹی آئی رہنما اور الیکٹیبلز پہلے ہی ترین گروپ میں شامل ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے 3 سابق رہنماؤں (سجاد بخاری، تسنیم گردیزی اور جہانزیب وارن) نے ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعلیٰ کے سابق مشیر علی گیلانی، سابق قانون ساز ممتاز مہروی، عظمت چشتی اور مہر ارشاد کاٹھیا اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما ریٹائرڈ میجر خرم روکھڑی اور عثمان اشرف نے بھی جہانگیر ترین سے ملاقات کی اور ان کے گروپ میں شامل ہوگئے۔
ترین گروپ اور پیپلزپارٹی کے درمیان جنوبی علاقوں سے زیادہ سے زیادہ الیکٹیبلز اور پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے سخت مقابلہ جاری ہے تاکہ اگلے عام انتخابات میں اس علاقے سے فتح کے امکانات روشن کیے جاسکیں۔