سچ خبریں:پاکستانی دستاویزی فلم بنانے والے ایک صحافی نے کہا کہ اس سال کے ورلڈ کپ میں آپ نے دیکھا کہ عربوں اور مسلمانوں نے اسرائیلی میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے بھی انکار کر دیا، میرے خیال میں یہ ٹورنامنٹ فلسطینی عوام کی اسرائیل پر فتح تھی۔
سولہویں بین الاقوامی حقیقت سنیما فیسٹیول کے موقع پر پاکستانی صحافی اور دستاویزی فلم بنانے والے صحافی جاوید رانا نے ایران کے خلاف مغربی میڈیا کی سرگرمیوں کے میدان میں مختلف مسائل کے بارے میں بات کی،انہوں نے کہ 20 سال پہلے امریکہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے عراق پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگ مارے گئے، اس کے بعد کیا ہوا؟ ملک میں افراتفری مچ گئی اور سب کچھ داعش کو دے دیا گیا، داعش کیا تھی؟ داعش ایک سیاسی نظام تھا جسے امریکہ اور اسرائیل نے پس پردہ ڈیزائن کیا تھا اور چونکہ وہ جانتے تھے کہ عراق اور دیگر ممالک مسلمان ہیں، اس لیے انہوں نے پوری دنیا سے انتہا پسند جہادیوں کو اکٹھا کیا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انہیں ان ممالک میں بھیج دیا، یہ تمام سرگرمیاں اس جھوٹ پر مبنی تھیں جسے امریکی اور اسرائیلی میڈیا سے پھیلایا، ایک طرف امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں جن سے ایرانیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور دوسری طرف وہ موجودہ حقائق کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں،امریکی میڈیا میں خواتین کے حقوق اور حجاب کے بارے میں بحث ایران میں بحران پیدا کرنے کے لیے پہلے سے طے شدہ منصوبہ ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ تمام ممالک میں خواتین کے حقوق کے شعبے میں سرگرم کارکن امریکہ میں تشدد اور عصمت دری کا نشانہ بننے والی خواتین کی تعداد کا ایران سے موازنہ کریں تو یقیناً اندازہ ہو جائے گا کہ یہ تعداد امریکہ میں یہ بہت زیادہ ہے، تاہم، وہ پھر بھی ایران اور دیگر ممالک کے بارے میں سچائی کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان میں بہت سی ثقافتی اور مذہبی مشترکات ہیں، ہم سب کا مذہب اسلام ہے، اگرچہ ہمارے درمیان کچھ چھوٹے مذہبی اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن ہم سب دین اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔
میری رائے میں ہمیں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور مذہبی مشترکات کو وسعت دینا چاہیے اور مشرق وسطیٰ کی سطح پر ان کا جائزہ لینا چاہیے مثلاً حجاب کے معاملے کے حوالے سے ہم یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ اگر مسلم خواتین نے حجاب کو قبول کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا پر یقین رکھتی ہیں، درحقیقت کسی نے انہیں حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہ ان کے عقائد کی بنیاد پر ان کا ذاتی انتخاب ہے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں؛ مذہب اسلام کے مطابق باپ، بیٹا اور شوہر عورت کی ہر طرح سے مدد کرنے اور اس کی مالی مدد کرنے کے پابند ہیں، لیکن مغرب کا کہنا ہے کہ مرد عورت کو کام کرنے اور معاشرے میں آنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے اگر مرد نے عورت کے لیے تمام آسانیاں مہیا کر رکھی ہیں تو اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
دوسرا موضوع اسرائیل کا مسئلہ ہے؛ ایران، افغانستان، پاکستان وغیرہ اسرائیل کے خلاف ہیں،اس سال کے ورلڈ کپ میں آپ نے دیکھا کہ عربوں اور مسلمانوں نے اسرائیلی میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے بھی انکار کر دیا، میرے خیال میں یہ ٹورنامنٹ اسرائیل پر فلسطینی عوام کی فتح تھی۔