اسلام آباد(سچ خبریں) حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مالی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے لیے مالیاتی ماہرین کی لیپ ٹاپ کے استعمال کی اجازت مسترد ہونے کے دو روز بعد ماہرین نے پارٹی کے مالیاتی دستاویزات کی ‘مینوئل’ چھان بین کا آغاز کردیا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی نے درخواست گزار کی جانب سے نامزد کیے گئے دو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فارن فنڈنگ کیس میں اسکروٹنی کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے میں درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کمیٹی کے فیصلے کو فوری طور پر ای سی پی کے سامنے چیلنج کیا تھا تاہم ابھی تک کمیشن اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں لے سکا۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ارسلان وردگ اور محمد صہیب جن کو ای سی پی نے درخواست گزار کی جانب سے کاغذات کی جانچ پڑتال کی اجازت دی ہے، نے پی ٹی آئی دستاویزات کے پہلے سیٹ کا دستی جائزہ لیا۔
انہیں نہ تو دستاویزات کی کاپیاں بنانے کی اجازت تھی اور نہ ہی فوٹو کھینچنے کی کیونکہ جانچ پڑتال کے عمل سے قبل موبائل فون جمع کرا دیئے گئے تھے۔
ای سی پی نے اپنے 14 اپریل کے حکم میں دو مالیاتی تجزیہ کاروں / چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو درخواست گزار کی جانب سے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار دیا تھا۔
پی ٹی آئی کے دستاویزات کا جائزہ 27 اپریل کو شروع ہونا تھا تاہم درخواست گزار کی جانب سے نامزد دو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ / مالی ماہرین کی طرف سے پی ٹی آئی کے لیپ ٹاپ کے استعمال پر اعتراض کرنے کے بعد اس عمل کو معطل کردیا گیا تھا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے لیپ ٹاپ کے استعمال کی اجازت کے لیے اسکروٹنی کمیٹی کو ہدایت کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔
اپنی درخواست میں اکبر ایس بابر نے الزام لگایا کہ ڈائریکٹر جنرل قانون کی سربراہی میں کمیٹی کارروائی کو روکنے کے لیے اپنے اختیار میں ہر حربہ استعمال کرنے اور 3 سال میں اس کے مکمل نہ ہونے کا جواز پیش کرنے میں جانبدار ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ کیس کے اختتام میں تاخیر سے ایسی قیادت سامنے آئی ہے جو نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی ملک پر حکومت کرنے کی اہل ہے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مغربی جمہوری اقدار کا حوالہ دے کر لوگوں کا اعتماد حاصل کیا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ‘آج وزیر اعظم عمران خان پر ایک سیکیورٹی ایجنسی کے سابق سربراہ نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے عہدے کا استعمال عدالت عظمیٰ کے ایک جج اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سازش کرنے کے لیے کرتے ہیں’۔
پی ٹی آئی کے بانی سربراہ نے کہا کہ ‘اگر مغرب میں کسی سیکیورٹی ایجنسی کے ذمہ دار سابق سربراہ کی طرف سے ایسا الزام عائد کیا جاتا تو وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتے، ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا اور اقتدار میں پارٹی نے ایک نئے رہنما کے انتخاب کا عمل شروع کردیا ہوتا’۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ ‘یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے، یہاں انصاف ملنے میں سب سے پہلی رکاوٹ خود ریاست ہے واضح رہے کہ اس عمل کی نگرانی کرنے والی ڈپٹی ڈائریکٹر قانون صائمہ طارق نے ابتدا میں لیپ ٹاپ کے استعمال کی اجازت دی تھی۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے اعتراض پر درخواست گزار کو بتایا گیا کہ وہ ڈیٹا ریکارڈنگ اور تجزیہ کے لیے لیپ ٹاپ کا استعمال نہ کریں۔
یہاں تک کہ درخواست گزار نے ای سی پی کے کمپیوٹر استعمال کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم درخواست گزار سے کہا گیا تھا کہ وہ رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ کے استعمال کے لیے درخواست دائر کریں۔
جانچ پڑتال کے عمل کے دوران لیپ ٹاپ کے استعمال کی درخواست منظور نہ ہونے پر درخواست گزار نے ای سی پی سے درخواست کی تھی کہ وہ اسکروٹنی کمیٹی کو پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے لیپ ٹاپ کے استعمال کی اجازت دینے کی ہدایت کرے۔
درخواست میں درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کہا کہ ‘کام کرنے کے آٹھ روز کی ایک محدود مدت میں متعدد مالی دستاویزات کو نوٹ کرنا، مرتب کرنا، موازنہ کرنا، اندازہ لگانا اور ان کا تجزیہ کرنے کے عمل کے دوران لیپ ٹاپ کا استعمال ضروری ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیپ ٹاپ کے استعمال سے انکار ‘واضح طور پر تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کے شفاف اور معتبر جائزے کو روکنے کی کوشش ہے’۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ ‘ابتدا میں اجازت دینے کے بعد لیپ ٹاپ استعمال کرنے سے انکار ایک اشارہ ہے کہ ڈی جی (قانون) کی سربراہی میں کمیٹی اس عمل کو روکنے اور جانچ پڑتال کے عمل میں تین سال کے طویل تاخیر کا جواز پیش کرنے کے عمل کو روکنے کے لیے اپنے اختیارات میں ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا خیال یہ ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ ڈی جی (قانون) اب مکمل طور پر جانبدار ہیں’۔