پشاور: (سچ خبریں) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے شریف فیملی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلی تھیلے سے باہرآگئی ہے، شریف فیملی قومی ایئر لائن کو اونے پونے داموں خود خریدنا چاہتی ہے۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کو خریدنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے، اگر ہم نے قومی ایئرلائن کو خرید لیا تو نام پی آئی اے ہی برقرار رکھیں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 9 تاریخ کو صوابی انٹرچینج پر جلسہ کریں گے، یہ ایک طرح کا خیبر پختونخوا کا جرگہ ہوگا جس میں باقی پاکستان سے بھی لوگ آئیں گے، ان کے لیے ہم نے ایک لائحہ عمل دینا ہے، اس میں فیصلہ کرنا ہے، اس کے مطابق اعلان کیا جائے گا کہ کیسے نکلنا ہے، کہاں، کہاں سے نکلنا ہے، کس طریقے سے نکلنا ہے، پاکستان کو کیسے بند کرنا ہے، ہم سب احتجاج کریں گے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ کارکنان اور حامیوں کو کنفیوز کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں، آپ کا مقصد سامنے ہے کہ پاکستان میں حقیقی آزادی، خود مختاری، قانون کی بالادستی اپنے آئین کا تحفظ اور اپنے اداروں کا تحفظ، اپنا مینڈینٹ جو ہم نے واپس لینا ہے، آپ کے ذہن میں یہ واضح ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عجیب بیانیے بنائے جا رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے لیے میں نے کردار ادا کیا ہے، کیا میں نے کسی کو بتایا؟ جب مجھے بتانا ہوگا تو میں بتادوں گا، لوگ بیٹھ کر میری بات کرتے ہیں، اگر مجھے کچھ بتانا ہوگا تو منہ ہے، میں خود بتادوں گا، میرے ساتھ کیا ہوا، یہ میں بتاؤں گا یا کوئی اور بتائے گا، اوروں کی نہیں آپ میری بات پر یقین کریں۔
انہوں نے کہا کہ مقصد قریب ہے، اس پر توجہ دیں، ہم آگے ہوں گے، قیادت کریں گے، پیچھے آپ ہوں گے، عمرن خان پر کوئی کیس نہیں ہے، وہ جیل میں ہے، بشریٰ بی بی پر کیا کیس ہے، جیل میں ڈالا ہوا تھا، ہماری قیادت جیل میں ہے، میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں، میرے خلاف ایک ہی گھنٹے میں 6 ضلعوں میں توڑ پھوڑ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، کبھی کسی کیس میں وارنٹ نکالا ہوا ہوتا ہے، کبھی کسی کیس میں، یہ جو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے شروع کیے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، انہوں نے خیبر پختونخوا ہاؤس پر کیا سوچ کر چڑھائی کی، میرے صوبے کے عوام کی پراپرٹی پر چڑھائی کی، کیا یہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں، یہ نہیں ہے کہ حساب نہیں دینا پڑے گا، ایک بار جب تک آئین کو توڑنے والے کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، اس ملک میں آئین ٹوٹتا رہے گا، قانون توڑنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی، قانون ٹوٹتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم خون خرابہ نہیں چاہتے، ہم پرامن ہیں، انہوں نے ہم پر حملہ کیا، گرفتاریاں ہوئیں، تازہ دم ہوکر دوبارہ آئیں گے، حکمت عملی بنا رہے ہیں، ہم نے سب فیصلہ سازوں کو جو ظاہر بات ہے کہ حکومتیں ہی ہیں انہیں وارننگ دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلی تھیلے سے باہرآگئی ہے، قومی ائیر لائن کو اونے پونے داموں شریف فیملی خود خریدنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا بجٹ سرپلس ہے، نومبر کو صوابی میں جمع ہوکر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، اس بار ایک مرتبہ ہی باہر نکلیں گے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے صوبہ پنجاب کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی خریداری کا عندیہ دیا تھا اور کہا تھا کہ پنجاب حکومت پی آئی اے خریدنے پر غوروخوض کررہی ہے۔
نوازشریف نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت کو تجویزدی ہےکہ پی آئی اے خریدلیں یاکوئی نئی ایئرلائن شروع کریں۔
یاد رہے کہ نواز شریف کے اس بیان سے ایک روز قبل حکومت خیبر پختونخوا نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا، خیبر پختونخوا بورڈ اف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ نے وفاقی وزیر نجکاری علیم خان کو اس سلسلے میں خط بھی لکھا تھا۔
خط میں لکھا گیا تھا کہ حکومت خیبر پختونخوا پی آئی اے کی نیلامی کے عمل میں حصہ لینا چاہتی ہے، پی آئی اے قومی ایئرلائن ہے، نہیں چاہتے کہ بیرونی یا نجی ہاتھوں میں جائے۔
واضح رہے کہ 31 اکتوبر کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کے لیے حتمی بولی لگانے کے عمل کے دوران 60 فیصد حصص کے لیے رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے 10 ارب روپے کی صرف ایک بولی لگائی گئی تھی۔
وزارت نجکاری نے اس پیش رفت کی تصدیق کی تھی جبکہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے متوقع کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی، بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین سعد نذیر کا اپنی بولی پر قائم رہتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر حکومت ہماری بولی قبول نہیں کرنا چاہتی تو ہم اس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
بولی کے عمل میں حصہ نہ لینے والے تین گروپوں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا تھا کہ انہیں طویل دورانیے کے دوران حکومت کی پی آئی اے کے لیے کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے خدشات ہیں۔