بلوچستان (سچ خبریں) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائم مقام اسپیکر نومنتخب اسپیکر اسمبلی کا اعلان کریں گے۔خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی جانب سے اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد نئے اسپیکر کے انتخاب کا عمل آج ہوا۔
گورنر بلوچستان ظہور آغا نے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس طلب کیا جس میں اسپیکر کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت صبح 8.30 سے 12 بجے تک رکھا گیا تھا۔
تاہم مقررہ وقت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر جان محمد جمالی کے 5 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جبکہ کسی دوسرے امیدوار نے ان کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔
سیکریٹری اسمبلی طاہر شاہ کے مطابق اسمبلی قوائد کے مطابق جان محمد جمالی بلا مقابلہ اسپیکر اسمبلی منتخب ہوگئے، اسپیکر کے انتخاب کے لیے 3 بجے وانے والے اسمبلی اجلاس میں اب رائے شماری نہیں ہوگی تاہم قائم مقام اسپیکر نومنتخب اسپیکر کے نام کا اعلان کریں گے۔
میر جان محمد جمالی بلوچستان کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ضلع جعفرآباد کے علاقے اوستہ محمد میں 23 مئی 1955 میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد نور محمد جمالی قبائلی رہنما ہونے کے ساتھ سیاست دان بھی تھے۔میر جان محمد جمالی نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد بلوچستان یونورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاذ 1983 میں بلدیاتی انتخابات سے کیا، 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بنے۔
بعدازاں انہوں نے 1990 میں آذاد امیدوار کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے اور 1993 میں صوبائی وزیر رہے۔میر جان محمد جمالی 1997 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر دوبارہ رکن اسمبلی بنے اور 15 جون 1998 سے لے کر 12 اکتوبر 1999تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے ۔
مسلم لیگ (ن) کے ہی ٹکٹ پر 2013 کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا اور کامیاب رہے جبکہ 4 جون 2013 سے 2015 تک اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہےاور 2مرتبہ ڈپٹی چیرمین سینٹ بھی رہے۔
2018 میں بلوچستان عوام پارٹی کا حصہ بنے اور اب ایک مرتبہ پھر اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال میں موجودہ تبدیلی بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی کی جانب سے کئی روز تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد استعفیٰ دینے کے بعد سامنے آئی ہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور اور کابینہ تحلیل ہوگئی ہے۔
اس سے قبل جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے صوبے کے داخلی معاملات میں وفاقی کابینہ کے اراکین کی مداخلت روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جام کمال نے ابن العربی سے منسوب ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیاسی تحریک بلوچستان اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگی۔20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔
تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 65 کا ایوان ہے، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے اراکین اسمبلی مسنگ پرسن میں آ گئے ہیں۔
اس سے قبل اپوزیشن کے 16 اراکین اسمبلی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی لیکن گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے باعث تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔
بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان عالیانی کی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کردیا تھا۔
یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا تھا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
اس کے بعد اپوزیشن کے 16 ارکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی تاہم گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔
اس ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں 14 اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی کیونکہ عالیانی کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کا سامنا تھا جن کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کے لیے ان سے مشاورت نہیں کرتے۔وزیراعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔