اسلام آباد:(سچ خبریں) ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست پر سماعت کی، بینچ کے دیگر دو ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت فریقین کے وکلا اور سیاسی رہنما بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج خواجہ سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی دونوں نظر آرہے ہیں، آج اپنے حوالے سے بھی کچھ بتانا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ قرضوں میں 78 فیصد، گردشی قرضوں میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
انہوں نے مزید دلائل دیے کہ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور تجارتی پالیسی کی منظوری لازمی ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا، ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے، ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ہمیں علم ہے کہ ملکی معیشت 2017 سے بہتر پوزیشن میں نہیں، پاور سیکٹر میں گردشی قرضے میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے، 2022 کے سیلاب نے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی موجودہ معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے، مذاکرات میں ایک ہی دن کرانے پر اتفاق ہو اہے، پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ مداخلت کے بغیر معاملات حل کیے جاسکتے ہیں اس لیے مزید وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ، وزیر خزانہ کے دستخط سے جمع ہوئی ہے، سیاسی معاملات کو سیاسی قیادت حل کرے لیکن موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی حکومت اس وقت بہت اہم ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی منظور کر سکتی ہے، اگر آج پنجاب یا خیبرپختونخوا کی حکومت ختم نہ ہوتی تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آپ کو پھر تکلیف نہ دی جاتی، اس وجہ سے عدالت کا دوسرا کام ڈسٹرب ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا ہے، عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور تجارتی پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے دلائل دیے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کے لیے آئین چاہ ماہ کا وقت دیتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دیں گے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے، 90 روز میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا، عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ نہیں کرتے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں، جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔
فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا، کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے کا کہا تھا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئینی نکات پر دلائل نہیں ہوسکے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ نظرثانی اپیل تک حکومت نے دائر نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی ہے، پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے، معاشی، سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ ساتھ آئینی بحران بھی ہے، کل بھی 8 افراد شہید ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا، معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کرائیں، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم صرف اللہ کی ذات ہے، حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے، عدالت تحمل مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے، شرط رکھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں، دوسری شرط یہ تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کرائے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تیسری شرط تھی کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ 14 مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے، نظریہ ضرورت کی وجہ سے الیکشن مزید تاخیر کا شکار نہیں کرسکتے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو عدالت میں خوش آمدید کہا۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، جو کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا، اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد بہت گہرا ہے، 2017 سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ میں بھی ایک شکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں، کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا، عوام کو صاف پانی نہیں دے سکتے، اداروں میں تصادم کے متحمل کیسے ہوسکتے ہیں؟
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران بہت کچھ سننا پڑا، مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے، آئین 90 دن کے ساتھ شفافیت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پر الزام لگتا ہے کہ یہی حکومت کا فیصلہ کرتا ہے، الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے، آئین کے تقاضوں کو ملا کر ایک ہی دن الیکشن ہوں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا، سیلاب اور محترمہ بینظیر کی شہادت پر انتخابات میں تاخیر ہوئی، اگر حکومت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے، کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو رہی ہے، اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں، مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے، سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں، دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کے لیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔
وفاقی وزیر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں، مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے، مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں، یہ میری تجویز ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں، اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی، ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقل کوئی بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہیے آپ ہوں یا ہم، نہ پہلے والا مارشل لا ہے نہ گزشتہ دور کا نقاب پوش مارشل لا ہے، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ترکیہ میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے، پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی، عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سیکیورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا، کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ نیک نیتی دکھانے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، سیکیورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی، 8 اکتوبر تک سیکیورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی، صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو 12 اکتوبر تک الیکشن ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے مکالمہ کیا کہ خواجہ صاحب، آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں، جس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سوموٹو کے نتیجے میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی، عدالت خود بھی اس نقطے پر غور کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے علاوہ نہ کوئی سنجیدہ نقطہ اٹھانا چاہتا ہے، ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے، دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیے، امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے تو۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اللہ نے امتحان مقرر کیا ہے، تو ہمارے ساتھ جو ہوگا دیکھا جائے گا، جس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بات 2 اور ہفتوں کی رہ گئی ہے، باتوں کے لیے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا، ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں، مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عدالت ہدایت نہ دے ہم خود مل بیٹھیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے، اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نظرثانی اپیل دائر کرنے کی مدت ختم ہوچکی ہے؟ نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے، جس پر وکیل شاہ خاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل قابل سماعت ہے؟ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف فنڈز اور سیکیورٹی چاہیے۔
شاہ خاور نے دلائل دیے کہ شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں ان کے نمائندے موجود ہیں، پارٹی لیڈران کے لیے سیاسی قائدین سے بات کریں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مذاکراتی ٹیموں کو ہی بات کرنے دی جائے، عدالت کو مذاکرات میں نہ لایا جائے، پہلے ہی کافی خرابی ہو چکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا مؤقف دہرایا ہے، اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں، حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں، حکومتی جواب میں صرف اسحٰق ڈار کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومتی درخواست صبح آئی، ابھی نمبر بھی نہیں لگا، لیکن اسے سن لیا، پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا 2 یا 3 دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کہتی تھی 12 جماعتیں ہیں مشاورت کے لیے وقت دیں۔
شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان سمیت سب نے تنقید کی کہ 3 دن کا وقت کیوں دیا، تیسری نشست دن 11 بجے ہونی تھی لیکن رات 9 بجے ہوئی، نظرثانی یہ نہ دائر کریں، مرضی کی مہلت بھی لیں، فیصلہ نہ ہو تو آئین کیوں داؤ پر لگائیں؟
پی ٹی آئی رہنما نے مزید دلائل دیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے نہ سننا چاہتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کو آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے، ہماری جماعت کا مؤقف دیکھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کا مؤقف پڑھ لیا ہے، دوسرے کیس میں کارروائی ہوسکتی ہے، اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آجائیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جتنی گنجائش کی توقع تھی اتنی نہیں ملی، حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی، کیا ہمیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں چبھ رہی تھیں؟
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ آئین کے تحت اپنی 2 حکومتوں کی قربانی دی، مذاکرات کا ایک ماحول ہوتا ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں، تنقید کے باوجود ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر قانون بڑا ایماندار آدمی ہے، وزیر قانون نے مذاکرات کے دوران کہا کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت مکمل ہوگئی، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس پر نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں۔ عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔
اس سے قبل حکومت نے جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ ایک تاریخ پر الیکشن کے معاملے پر فریقین میں مذاکرات پر مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
ایک ہی دن انتخابات کے حوالے سے درخواست پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔
اسحٰق ڈار نے جواب اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ حکومتی اتحادی اور اپوزیشن ملک بھر میں ایک تاریخ کو الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی کے بہترین مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو تیار ہیں اور تحریک انصاف نے بھی ایک تاریخ کو الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے معاملے پر فریقین میں مذاکرات پر مثبت پیشرفت ہوئی البتہ قومی اسمبلی اور باقی صوبائی اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی اس تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مزید کہا گیا کہ حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں لچک دکھائی ہے اور اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے 27 اپریل کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ برقرار ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان باہمی روابط سے آگاہ کیا، اٹارنی جنرل کے مطابق عید کی چھٹیوں کے بعد فریقین کے درمیان عام انتخابات پر مذاکرات سے متعلق رابطہ ہوا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے فریقین کی مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا اور کہا کہ مذاکرات کی سہولت کاری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔
اعلامیے کے مطابق عدالتی اصرار پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو چیئرمین سینیٹ کو ملوث کرنے پر آگاہ کیا، فاروق ایچ نائیک کے مطابق مذاکرات سینیٹ سیکرٹریٹ میں ہوں گے۔
اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے لیے چیئرمین سینیٹ کا کردار محض سہولت کار کا ہے اور سپریم کورٹ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو سراہتی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن کرانے پر متفق ہوتی ہیں تو یہ قابلِ ستائش عمل ہے، عدالت واضح کرتی ہے کہ مذاکراتی عمل کے لیے عدالت کا کوئی کردار نہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے مذاکراتی عمل کے لیے کوئی ڈائریکشن نہیں دی، یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم نامہ برقرار رہے گا۔
واضح رہے کہ سردار کاشف خان نامی شہری نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی تاریخ کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت اور قانون اور انصاف ڈویژن کو فریق بنایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 4 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔