اسلام آباد: (سچ خبریں) آئی ایم ایف پیکج اور دوست ممالک کی مدد بھی کام نہ آئی، ڈالر کی اونچی اڑان بدستور برقرار ہے، روپے کی قدر میں آئے روز تنزلی معمول بن گئی، تاجروں نے ایل سیز کھولنے کیلئے دوبئی سمیت دیگر ممالک کا رخ کر لیا۔
آئی ایم ایف قرض پروگرام بحالی اور سعودی عرب سے سیف ڈیپازٹ کی مدت میں توسیع کے بعد توقع تھی کہ پاکستانی روپیہ مستحکم ہو گا مگر ایسا ہو نہ سکا، ڈالر کی اڑان کی بڑی پانچ وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر صرف 14 ارب 31 کروڑ ڈالرز ہیں، ان میں سے سٹیٹ بینک کے اپنے ذخائر صرف 8 ارب 62 کروڑ ڈالرز ہیں، یہ رقم دو ماہ کے امپورٹ بل کی ادائیگی کیلئے بھی نا کافی ہے۔
برآمدات میں کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافے کے باعث بیرونی ادائیگیوں کادباؤ بڑھتا جارہا ہے، دوسری بڑی وجہ سیلاب کے بعد اجناس کے درآمدی بل میں بھی نمایاں اضافہ ہے جس کے اثرات آنے والے دونوں میں مزید زیادہ ہوں گے، یوں ڈالر کا ان فلو کم جبکہ ادائیگیاں زیادہ ہونے سے روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔
روپے کی تنزلی کی تیسری بڑی وجہ ڈالر کا دنیا بھر کی کرنسیوں کے مقابلے میں تگڑا ہونا بھی ہے، ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پاونڈ 37 برس جبکہ یورو 20 برس کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں مگر اسکے باوجود وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل حیران کن طور پر امید ہیں کہ روپے کی قدر میں جلد اضافہ ہو گا۔
روپے کی قدر میں کمی کی چوتھی وجہ یہ بھی ہے کہ ڈالر کی کمی کے باعث صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جولائی تک ایک ارب ڈالر کی میچور ایل سیز بھی نہ کھل سکیں، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف ہوچکا ہے کہ بینک ایل سیز کھولنے کیلئے انٹر بینک ریٹ سے 15 روپے زائد وصول کر رہے ہیں، اس صورتحال میں تاجر امپورٹ کیلئے دوبئی سمیت دیگر ممالک کے بنک اکاؤنٹس استعمال کر رہے ہیں۔
روپے کی گراوٹ کی پانچویں وجہ سیاستدانوں کی جانب سے آئے روز ملک کے ڈیفالٹ ہونے سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی ہیں جو ملکی معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی عدم استحکام بھی روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ ہے کیونکہ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہے، آئی ایم ایف پیکج اور سعودی عرب سیف ڈیپازٹ کی مدت میں توسیع سے کچھ مدد ضرور ملی ہے مگر معیشت کو سنبھالہ دینے کیلئے آئی ایم ایف سے ریپڈ فنانس انسٹرومنٹ کی سہولت حاصل کرنا ہو گی۔