پشاور: (سچ خبریں) پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکلا کی جانب سے تاخیر سے آنے پر اظہار برہمی کیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی کیس کی سماعت کررہے ہیں۔
انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ پارٹی رہنما بیرسٹر گوہر خان راستے میں ہے، کیس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا جائے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم جواب جمع کرتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ابھی جواب جمع کرلیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت وکیل کی استدعا پر کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلا کو بھی طلب کیا جائے، تحریک انصاف کےانتخابات کاسب سے پہلےاعتراض اکبر ایس بابر کاہے وہ کہاں ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ میرا وکیل ہڑتال کی وجہ سے کورٹ میں نہیں آرہا، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ کورٹ ہے ہمارا ہڑتال سے کوئی سرو کار نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدوار کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا، پی ٹی آئی کو اگر نشان الاٹ نہیں ہوتا تو وہ آزاد تصور ہوں گے، ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو عبوری ریلیف دی وہ ختم ہوگئی ہے۔
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں تو یہ مسئلہ ختم ہوسکتا، سپریم کورٹ میں کیس کی ضرورت نہیں۔
اس موقع پر بیرسٹر گوہر کی تاخیر پر قاضی انور ایڈووکیٹ نے عدالت سے معذرت کی، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں مزید انتظار نہیں ہوگا۔
جسٹس اعجاز انور نے ایک بار سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہ ایک بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت ہوگی، مزید کوئی وقت نہیں دیا کائےگا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی بھی شخص کو انٹرا انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی، پشاور:سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ 13جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے ہیں تو ایسے میں انٹراپارٹی الیکشن ہوسکتےہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کےلئے کسی سےکاغذاتِ نامزدگی طلب ہی نہیں کیے، عدالت نے کہا کہ پشاور:کیوں نہ اس کیس کو پرسوں کے لیے رکھ لیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ انٹرم ریلیف کو دوبارہ بحال کردیں، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ نہیں وہ ہم نے دیکھ کے کیا، آپ کا انٹرم ریلیف حتمی استدعا ہی ہے۔
بیرسٹر ظفر نے موقف اپنایا کہ نہیں پھر بہت دیر ہوجائے گی، 13 کو نشانات الاٹ ہوں گے، ہم پھر الیکشن کمیشن کو فہرست بھی نہیں پہنچا سکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہیں، آپ دلائل جاری رکھیں۔
پشاور:بیرسٹر علی ظفر نے استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، بیرسٹر گوہر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی چئیرمین منتخب ہوئے، بیرسٹر گوہر نے ریکارڈ پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو دے دیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگرانٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائے، تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن صرف ’ریکارڈ کیپر‘ ہے، رولز کے مطابق کوئی بھی پارٹی اپنا آئین بنائے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے استدلال کیا کہ رولز کے مطابق پارٹیاں صرف الیکشن کمیشن میں ریکارڈ جمع کرائیں گی، انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں۔
بیرسٹر ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے صرف یہ اعتراض کیا کہ تعیناتی صحیح نہیں ہوئی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے، کالعدم قرار دیا جائے۔
اس کے ساتھ بیرسٹر ظفر کے دلائل مکمل ہوگئے، انہوں نے مسلسل 2 گھنٹے دلائل دیے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ بیرسٹر ظفر صاحب آپ نے دلائل دیے، چائے پی لیں، آپ نے سفر بھی کیا ہے، 3 بج کر 30 منٹ پر جمع ہوں گے۔
عدالت میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کی واپسی کے خلاف کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند کے دلائل جاری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں کیس لفظ بہ لفظ ایک ہے، لاہور ہائی کورٹ نے 3 وجوہات پر کیس کو خارج کیا، پہلی وجہ یہ کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ کیس پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، لاہور ہائی کورٹ سے کیس خارج ہونےکی تیسری وجہ قانون کو براہ راست چیلنج نہ کرنا ہے۔