اسلام آباد (سچ خبریں) امریکی ٹی وی چینل سی این این کو اپنے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کے دہشتگردوں کے پناہ دینے کے الزام کو مسترد کرتا ہوں، امریکا کو حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، پاکستان بارے محفوظ ٹھکانوں کی بات کی جاتی ہے، داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشتگرد افغانستان سے پاکستان پرحملہ کرتے ہیں، امریکا سے پیسے کیلئے تعلقات نہیں چاہتے کہ پیسے دے کام کرائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے، افغانستان سے داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشتگرد پاکستان پرحملہ کرتے ہیں، پاکستان سے باربار محفوظ ٹھکانوں کی بات کی جاتی ہے،امریکا کو حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، حقانی جب سوویت یونین کےخلاف لڑرہے تھے تب وہ مجاہد تھے، حقانی قبائل افغانستان میں رہائش پذیر تھے، اتحادی ہونے کے باوجود امریکا نے پاکستان پر ڈرون حملے کیے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے امریکی صدر سے بات نہیں ہوئی جبکہ جوبائیڈن نے فون نہیں کیا، وہ مصروف شخصیت ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر میں نائن الیون کے وقت وزیر اعظم ہوتا تو افغانستان پرامریکی حملے کی اجازت نہیں دیتا۔ تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ امریکا کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان سےعدم اعتماد کی وجہ زمینی حقائق سے امریکا کی قطعی لاعلمی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے امریکی صدر جو بائیڈن سے بات نہیں ہوئی جبکہ انہوں نے فون نہیں کیا، وہ مصروف شخصیت ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے اور افغانستان میں افراتفری اورپناہ گزینوں کے مسائل کا خدشہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کودہشت گردی کا بھی سامنا ہوسکتاہے، آئندہ افغانستان میں کیا ہوگا کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔
خواتین کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ افغان خواتین کو وقت پر حقوق مل جائیں گے، یہ سوچناغلط ہےکہ کوئی باہرسےآکرافغان خواتین کو حقوق دلا سکتا ہے، افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں وہ اپنے حقوق خودحاصل کرلیں گی۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ طالبان چاہتے ہیں عالمی برادری انہیں تسلیم کرے، ہمیں طالبان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، افغانستان کوباہرسے کنٹرول نہیں کیاجا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ افغانسان اس وقت تاریخ ساز موڑ پر ہے، ہمیں افغانستان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہاں صورتحال کنٹرول میں رہے۔