اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن کو آئندہ عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی 27 ستمبر کو شائع ہونے والی ابتدائی فہرستوں پر ایک ہزار 324 اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق الیکشن کمیشن کو پنجاب میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے کُل 672 اعتراضات جمع ہوئے، اس کے بعد خیبرپختونخوا میں 293، سندھ میں 228، بلوچستان میں 124 اور اسلام آباد میں 7 اعتراضات جمع ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کی روشنی میں ملک بھر میں انتخابی اضلاع کو دوبارہ ترتیب دینے کے بعد 27 ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں شائع کی تھیں اور رجسٹرڈ ووٹرز سے اعتراضات جمع کرانے کو کہا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اعتراضات جمع کرانے کے لیے 27 اکتوبر کی آخری تاریخ مقرر کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ ان اعتراضات پر متعلقہ فریقین کے مؤقف سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
اعتراضات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے، الیکشن کمیش 2 بینچ تشکیل دے چکا ہے جو یکم نومبر سے اعتراضات کی سماعت شروع کریں گے۔
ابتدائی فہرستیں پہلے 9 اکتوبر کو شائع کی جانی تھیں لیکن سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر حلقہ بندیوں کی ٹائم لائن میں 14 دن کی کمی کر دی گئی تاکہ یہ عمل 14 دسمبر کے بجائے 30 نومبر تک مکمل کیا جا سکے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں شائع کرنے کے فیصلے کو عام انتخابات کے انعقاد کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا، جو ممکنہ طور پر آئندہ برس کے پہلے مہینے میں منعقد کیے جائیں گے۔
تاہم انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں، بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کسی نہ کسی بہانے انتخابات کے انعقاد میں کم از کم ایک سال کی تاخیر ہو سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کو 2017 میں کی گئی متنازع مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کے بعد 2022 میں کُل ایک ہزار 285 اعتراضات موصول ہوئے تھے۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب، اسلام آباد اور سندھ میں جمع کرائے گئے اعتراضات کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کو 2022 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں اِس بار خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ووٹرز کی جانب سے زیادہ اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔
اُس وقت الیکشن کمیشن کو خیبرپختونخوا سے 192 اور بلوچستان سے 104 اعتراضات جمع ہوئے تھے، اسی طرح پنجاب کے ووٹرز کی جانب سے 705 اور سندھ میں 284 اعتراضات موصول ہوئے تھے۔
2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری اُس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل سے صرف 4 روز قبل مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے 5 اگست کو دی تھی۔
منتخب پارلیمان نہ ہونے کی وجہ سے مقننہ کی کُل نشستوں کی تعداد میں اضافہ یا کمی کے لیے کوئی آئینی ترمیم نہیں کی جا سکتی، اس لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر کُل نشستوں کی تعداد وہی رہے گی۔
پچھلی قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل تھی تاہم یہ یاد رہے کہ 25ویں ترمیم (جس کے تحت سابقہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا) قومی اسمبلی میں فاٹا کی 12 نشستیں ختم کر دی گئی تھیں اور خیبرپختونخوا کے لیے 6 مزید نشستیں مختص کر دی گئی تھیں، جس سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی کُل تعداد کم ہو کر 336 رہ گئی تھی، علاوہ ازیں خواتین کے لیے 60 نشستیں اور غیر مسلموں کے لیے 10 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی میں پنجاب کی 141 نشستیں ہیں، اس کے بعد سندھ کی 61، خیبرپختونخوا کی 45، بلوچستان کی 16 اور اسلام آباد کی 3 نشستیں ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اعداد و شمار کے مطابق پنجاب 12 کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار 922 کی کُل آبادی کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد سندھ 5 کروڑ 56 لاکھ 96 ہزار 147، خیبر پختونخوا 4 کروڑ 8 لاکھ 56 ہزار 97 اور بلوچستان ایک کروڑ 48 لاکھ 94 ہزار 402 کی آبادی کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔