اسلام آباد(سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس کو باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کے بعد چیف سیکریٹری اور دیگر حکام کو نوٹسز جاری کردیے جو آئندہ ہفتے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔
ای سی پی کا 3 رکنی بینچ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں معاملے کی سماعت کرے گا، بینچ میں الیکشن کمیشن کے بلوچستان سے رکن نثار احمد درانی اور سندھ کے رکن شاہ محمد جتوئی شامل ہوں گے۔
اس معاملے کو باقاعدہ سماعت کے لیے اٹھانے کا فیصلہ کمیشن کے 25 اگست کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرنے کے علاوہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کی مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ای سی پی نے زور دیا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے اور وفاق اور صوبوں میں تمام ایگزیکٹو اتھارٹی آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت اپنے کاموں کو انجام دینے میں کمیشن کی مدد کرنے کے پابند ہیں۔
اس ضمن میں 23 اگست کو منعقد ہونے والی ایک فالو اپ میٹنگ میں حکومت سندھ کے نمائندوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
سندھ کے چیف سیکریٹری سید ممتاز علی شاہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت، بلدیاتی انتخابات نہیں کروا سکتی کیونکہ اسے 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات ہیں اور وہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں تبدیلیاں لانا چاہتی ہے جس میں 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری عمر حمید خان نے کہا کہ سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت گزشتہ سال 30 اگست کو ختم ہوچکی ہے اور آئین کے مطابق کمیشن کو مدت ختم ہونے کے بعد 120 دن کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے اور رواں برس یکم جون کو حد بندی سے متعلق افسران کی تعیناتی اور مقامی حکومتوں کے قیام کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت کو مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بعد 6 مئی کو شائع ہونے والی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات ہیں اور انہوں نے نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 154 (7) کے تحت اپیل وفاق میں دائر کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ ان تحفظات کی موجودگی میں مقامی حکومتوں کی نوعیت اور ان کے ارکان کی تعداد کے تعین کے لیے قانون سازی بھی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس نے فیصلہ دیا تھا کہ لوکل گورنمنٹ قانون میں ترمیم کا عمل 18 ماہ قبل مکمل کیا جائے اور انتخابی شیڈول کے اعلان سے ایک سال قبل حد بندی شروع کی جائے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا تھا کہ ’اب جب مردم شماری کے حتمی نتائج شائع ہو چکے ہیں تو حکومت سندھ کہتی ہے کہ اسے مردم شماری کے حتمی نتائج پر تحفظات ہیں، یہ نقطہ نظر یہ تاثر دیتا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت سندھ کے نمائندوں نے الیکشن کمیشن کو بھی آگاہ کیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے ٹائم فریم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔