اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے آج اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کردی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے اپیل دائر کی جس میں علی نواز اعوان، الیکشن کمیشن، چیف کمشنر اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی)کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ قانون اور حقائق پر پورا نہیں اترتا، ایک رکنی بینچ نے شام 5 بجے حکم دیا کہ اگلے روز انتخابات کروائے جائیں، وقت کی کمی کے باعث سنگل رکنی بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد ناممکن تھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے معاملے کے حقائق اور قانونی پہلوں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا، الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا، الیکشن کمیشن ایگزیکٹیو ادارہ نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے حکومت کو اپنا جواب جمع کرانے کیلئے مناسب وقت نہیں دیا، فیصلہ قانون اور حقائق کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ انٹرا کورٹ اپیل پر حتمی فیصلہ آنے تک گزشتہ روز کا سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کیا جائے۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر اپیل میں رہنما جماعت اسلامی میاں اسلم اور علی نواز اعوان کو فریق بنایا گیا ہے، الیکشن میں معاونت کے لیے سیکریٹری داخلہ کو لکھا گیا خط بھی انٹراکورٹ اپیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اپیل میں سنگل بینچ کا 30 دسمبر (گزشتہ روز) کا حکم نامہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ بے شمار وجوہات کے سبب آج الیکشن کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا، بیلٹ پیپرز چھپوائی کے بعد پرنٹنگ کارپوریشن میں موجود تھے جنہیں 14ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پہنچانا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ 23 دسمبر کو ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 31 دسمبر کو الیکشن کرانے کا حکم معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے انتخابات کے لیے درکار 23 دسمبر سے 31 دسمبر تک ہونے والی سرگرمیاں مکمل نہ ہو سکیں۔
اپیل میں بتایا گیا کہ 14 ہزارسے زائد تربیت یافتہ عملے کو الیکشن ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینا تھے، میٹروپولیٹن شہر ہونے کی وجہ سے عملے میں شامل ملازمین کا تعلق تمام صوبوں سے ہے، انتخابات کے التوا اور موسم سرما کی تعطیلات کی وجہ سے وہ اپنے آبائی شہروں کو لوٹ گئے تھے، اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنز پر واپس بلانے کے لیے انہیں کم از کم 24 گھنٹے درکار ہوں گے، ان کی جگہ غیر تربیت یافتہ عملے کی تعیناتی خطرے کا باعث ہوگی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ریٹرنگ افسران کو بیلٹ پیپرز کی وصولی سے تقسیم تک مختلف اقدامات کرنا ہوتے ہیں، مقامی انتظامیہ کو انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کرنا تھے، یہ عمل انتخابات سے ایک روز قبل ہونا تھا لیکن التوا کے سبب یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیل پر آج ہی سماعت کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ صورتحال میں آج انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا لہٰذا ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے لوگ پولنگ اسٹیشنز پہنچنا شروع ہوگئے ہیں تاہم الیکشن کمیشن کا عملہ نہیں پہنچ سکا۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’عدالتی حکم کے بعد لوگ پولنگ سٹیشنز کے باہر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے موجود ہیں لیکن الیکشن کمیشن کا عملہ نہ آیا، عدالت کے حکم کو اِس الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے رد کردیا‘۔