اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کے رہنما علی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جبکہ اسی مقدمے میں سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کرلی۔
مقامی عدالت کے جج وقاص احمد راجہ نے ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف تھانہ ترنول میں کارسرکار میں مداخلت اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے کیس کی سماعت کی۔
پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا۔
پراسیکیوٹر عاطف الرحمٰن کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ علی وزیر کی حد تک پہلے دو روزہ جسمانی ریمانڈ مل چکا ہے۔
پراسیکیوٹر عاطف الرحمٰن نے کہا کہ علی وزیر کی جانب سے پولیس سے تعاون نہیں کیا جا رہا اور ان سے پولیس کٹ اور ہتھیار برآمد کرنے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر علی وزیر کے وکیل نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دو روزہ جسمانی ریمانڈ مل چکا ہے لیکن کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی۔
وکیل نے کہا کہ علی وزیر کے خلاف درج مقدمے میں 3 ناقابلِ ضمانت دفعات ہیں جبکہ دیگر قابلِ ضمانت ہیں۔
علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ ریلی کے شرکا کوئی بھی ہوسکتے ہیں، علی وزیر کا ریلی کے شرکا سے کچھ لینا دینا نہیں، پولیس آخر علی وزیر سے کیا اگلوانا چاہتی ہے۔
پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ شریک ملزمان سے اسلحہ بھی برآمد ہواہے، تاہم علی وزیر تعاون نہیں کررہے۔
اس موقع پر علی وزیر روسٹرم پر آئے اور مؤقف اپنایا کہ جلسہ کرنے جارہے تھے تو کافی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی، نگراں حکومت کی کال آئی، بات چیت چل رہی تھی۔،جلسہ کرلیا تو نگراں وزیر داخلہ نے شکریہ کا ٹوئٹ کیا۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر علی وزیر کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں عدالت نے علی وزیر کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور ان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
علاوہ ازیں عدالت نے تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 30 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
ڈیوٹی جج وقاص احمد راجہ نے تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔
ایمان مزاری کی جانب سے وکیل زینب جنجوعہ اور قیصر امام عدالت میں پیش ہوئے۔
ایمان زینب مزاری کی ضمانت کی درخواست پر ان کے وکیل قیصر امام نے دلائل دیے اور مؤقف اپنایا کہ ملزمہ 24 گھنٹے تحویل میں رہیں لیکن تفیتیش کے دوران کوئی ریکوری نہیں کی گئی۔
ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے دھمکی دی نہ ہی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات بنتی ہی نہیں جس کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
وکیل نے دلائل دیے کہ جنازے میں جیب کترے بھی ہوتے ہیں تو کیا سب لوگوں پر دفعات عائد کر دی جاتی ہیں، لہٰذا استدعا ہے کہ زینب مزاری کی ضمانت کی درخواست منظور کی جائے۔
پراسیکیوٹر عاطف الرحمٰن نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ابھی کیس کا اسٹیج نہیں کہ دفعات پر دلائل دیے جائیں کیونکہ جلسہ سے ملزمہ نے خطاب کیا اور عوام کو اکسایا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ایمان مزاری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ایمان مزاری کی تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔
عدالت نے ایمان مزاری کو 30 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ایک دوسرے مقدمے میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔