اسلام آباد: (سچ خبریں) پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اور اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آڈیو لیکس کے معاملے پر درِ عمل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے لکھا کہ ‘آڈیو لیکس قومی سلامتی پر ایک سنگین حملہ ہےکیونکہ ان سے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم دفتر کے پورے حفاظتی نظام پر سوالات اٹھتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘بطور وزیر اعظم میری رہائش گاہ کی محفوظ لائن بھی ریکارڈ کی گئی تھی’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘ہم ان آڈیوز کی جانچ پڑتال کے لیے عدالت سے رجوع کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے سراغ لگایا جا سکے کہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ریکارڈنگ کی ذمہ دار ہے اور کون یہ آڈیوز جاری کر رہا ہے’۔
سابق وزیراعظم نے لیک ہونے والی آڈیوز پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے بہت سی ایڈیٹڈ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ تحقیق نہایت اہم ہے کیونکہ قومی سلامتی سے جڑے حساس موضوعات پر گفتگو وغیرہ کو غیرقانونی طور پر ریکارڈ اور پھر ہیک کیا گیا’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘نتیجتاً پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے معلومات پوری دنیا کے سامنے آشکار ہوکر رہ گئی’۔
واضح رہے کہ اس وقت ملک میں آڈیو لیکز کا معاملہ زیرِ بحث ہے جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سخت تنقید کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی میدان پر گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔
ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں بشمول وزیر اعظم شہاز شریف، مریم نواز، رانا ثنااللہ اور دیگر کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں تو دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان، اسد عمر، شیریں مزاری سمیت دیگر رہنماؤں کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں۔
لیک ہونے والی آڈیوز میں سرکاری امور، سائفر، ہارس ٹریڈنگ، نجی امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے جس کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین اور حامی ایک دوسرے کو ٹرولز کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ملک کی قومی سلامتی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں انٹیلی جنس ایجنسیز سے پوچھتا ہوں کہ کیا اب تمہارا یہ کام رہ گیا ہے کہ اپنے اوپر لوگوں کی بھی جاسوسی کرو اور جوڑ توڑ کرو کہ کس کو لانا ہے کس کو گرانا ہے۔
راولپنڈی میں پارٹی کارکنان سے حلف لینے کی تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے ایک ایک پہلو پر سوچ سمجھ کر منصوبہ کیا ہے اور رانا ثنااللہ اور شہباز شریف ٹائپ کے لوگوں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ میرے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں ان لوگوں نے چار مرتبہ میرے خلاف لانگ مارچ کیں۔
عمران خان نے کہا کہ ایک بار مریم بی بی نے لانگ مارچ کی کوشش کی جو راستے میں ہی ختم ہوگئی کیونکہ قیمے کے نان ہی ختم ہوگئے تھے، اسی طرح دوسری مارچ ’کانپیں ٹانگنے‘ والے بلاول بھٹو زرداری نے کی اور وہ ڈی چوک میں بھی پہنچ گیا جس کو روکنے کے لیے کوئی کنٹینر بھی نہیں رکھا نہ ہی کسی کے اوپر ایف آئی آر داخل کی۔
انہوں نے کہا کہ میری حکومت میں دو بار ’ڈیزل صاحب‘ نے مارچ کی مگر ہم نے روکنے کی کوشش نہیں کی مگر اس کے بجائے میں نے ڈیزل صاحب سے پوچھا کہ اگر کھانے پینے کی ضرورت ہو تو وہ بھی ہم پہنچا دیں گے کیونکہ عوام ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کسی سے خوف نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جب بھی میں مارچ کا نام لینے لگتا ہوں تو کانپیں ٹانگنا شروع ہو جاتی ہیں اور اب کو بھی نہیں بتایا کہ میں نے کیا کرنا ہے یہاں تک کہ اپنی ٹیم کو بھی نہیں بتایا کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہرجگہ فون، ٹیلی فون اور گھر بھی ٹیپ ہیں جبکہ نوکروں کو بھی انہوں نے خریدنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ میں انٹیلی جنس ایجنسیز سے پوچھتا ہوں کہ کیا اب تمہارا یہ کام رہ گیا ہے کہ اپنے اوپر لوگوں کی بھی جاسوسی کرو اور جوڑ توڑ کرو کہ کس کو لانا ہے کس کو گرانا ہے، کیا آپ کو ملک کی فکر ہے یا نہیں کہ چوروں کو ہمارے اوپر لاکر بٹھا دیا ہے۔