اسلام آباد:(سچ خبریں) حکومت، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے انتہائی ضروری فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے پوری تندہی سے کام کر رہی ہے لیکن پس منظر میں حکام سے ہونے والی گفتگو میں انکشاف ہوا کہ انتظامیہ خاصی بے چین ہے کیوں کہ اس کے لیے آئی ایم ایف کو قرض کی قسط جاری کرنے کے لیے راضی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف نے اشد ضروری معاشی بیل آؤٹ کے اسٹاف کی سطح کے معاہدے پر پہنچنے سے پہلے کم از کم 4 پیشگی اقدامات کی تشریح تبدیل کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام حالیہ صورتحال سے انتہائی تنگ ہیں اور اسے ’بدسلوکی‘ قرار دے رہے ہیں۔
ایک ناراض سینیئر عہدیدار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے اراکین ہیں، کوئی بھکاری نہیں ورنہ ہماری رکنیت ختم کردی جائے‘۔
ایک اور عہدیدار نے اس صورتحال کو 1998 جیسی قرار دیا جب ایٹمی دھماکے کے تناظر میں پاکستان کی معاشی مشکلات بدتر ہوگئی تھیں اور لگ رہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرِ عام آئی ایم ایف غریبوں کی مدد کرنے کا خواہاں ہے لیکن کچھ ایسے اقدامات پر اصرار کر رہا ہے جو بالآخر کم آمدنی والے طبقے کو متاثر کریں گے۔
تاہم مایوسی کے باوجود حکام کو آئندہ ہفتے تک اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہونے اور دوست ممالک سے عملی طور پر مالی مدد کی توقع ہے جس میں آئی ایم ایف کی جانب سے سگنل ملنے کے انتظار میں توقع سے زیادہ وقت لگ گیا ہے۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام آباد کی سفارتی کوششوں میں فرق، ماضی میں متفقہ پالیسی اقدامات واپس پلٹانے کے بعد پاکستان کی ساکھ کے فرق اور اعتماد کے خسارے کے ساتھ مل کر، وہ اہم عوامل تھے جنہوں نے کچھ دارالحکومتوں کو پاکستان کی ’تباہ کن صورتحال‘ کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا۔
آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق موجودہ مالی سال میں مجموعی طور پر تقریباً 7 ارب ڈالر کا مالیاتی فرق رہے گا جبکہ پاکستان کا تخمینہ 5 ارب ڈالر کا ہے۔
تاہم ایک عہدیدار نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر موجودہ 3 ارب 10 کروڑ ڈالر سے کچھ زیادہ کی سطح سے بڑھ کر جون کے اختتام تک 10 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق حکام نے چینی بینک سے 70 کروڑ ڈالر ملنے کے علاوہ 3 اقساط میں ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کا بندوبست کیا ہے جو چند روز کے وقفے سے 50 کروڑ ڈالر کی دو اور 30 کروڑ ڈالر کی ایک قسط پر مشتمل ہوگا۔
اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی 3 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے قرض پروگرام کے ایجنڈے میں مہنگائی کی نمائندگی کرنے والی مرکزی بینک کی شرح سود میں جلد اضافہ، جنگ سے تباہ حال اور پابندیوں سے متاثرہ افغانستان جانے والے ڈالرز کا بندوبست کرنے کے لیے شرح تبادلہ کی نقل و حرکت، دوست ممالک سے بیرونی مالیاتی فرق پورا کرنے کی تحریری یقین دہانیاں اور آنے والے سال کے لیے حکومت کے اعلان کردہ 4 ماہ کے بجائے ضمنی مالیاتی بل کے ذریعے صارفین سے 3.39 روپے فی یونٹ مالی لاگت سرچارج کی وصولی جاری رکھنا شامل ہیں۔
تاہم ایک عہدیدار نے اس آخری شرط کو ’غیر معقول‘ قرار دیا، کیونکہ دلیل یہ ہے کہ اس طرح کے سرچارج سے آنے والے برسوں میں پاور سیکٹر کی فنانسنگ کے فرق کو پورا کرنے میں مدد ملے گی، پر عدلیہ اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں ایسا مستقبل کے برسوں کے لیے کیسے کیا جاسکتا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ 9 فروری کو دورہ ختم کرکے واپس جانے والے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تمام معاملات طے ہوگئے تھے یہاں تک کہ فنڈ کی جانب سے ایک اختتامی بیان میں ’جامع مذاکرات اور مذاکرات کے مثبت نتائج‘ کی اطلاع دی جانی تھی، جو بیرون ملک منظوری کے عمل کے دوران ختم ہوگئی، جہاں کچھ بااثر حلقوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’سیاستدانوں سے زیادہ سیاسی‘ ہیں۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ جبر کی یہ صورت حال 1998 سے مختلف نہیں جب مغرب ’پاکستان کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا‘ چاہتا تھا اور قوم کو جوہری تجربات کی سزا دینے کے لیے پردے کے پیچھے چلا گیا، اس بار کچھ طاقتوروں کے ذہن میں پاکستان کا میزائل پروگرام تھا۔