لندن (سچ خبریں)کیا آپ جانتے ہیں کہ ہیروئن کو 19ویں صدی کی آخری دہائی میں پہلی بار ایک لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے چند برس بعد تک کھانسی اور گلے کی خراش کے لیے بنائی جانے والی ادویات میں استعمال کیا جاتا تھا آخر اس پر پابندی کیوں لگائی گئ؟
آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ہیروئن دنیا کی بدنام ترین نشہ آور اشیا میں سے ایک ہے اور اس کا استعمال غیر قانونی ہے۔ گذشتہ 20 برس میں صرف امریکہ میں اس کے زیادہ مقدار میں استعمال کی وجہ سے ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ہیروئن کی تیاری کے حوالے سے سب سے پرانی رپورٹ سنہ 1874 کی ہے جب ایک انگریز کیمیا دان سی آر اے رائٹ نے اسے لندن کے سینٹ میری ہسپتال سکول آف میڈیسن میں مارفین سے تیار کیا۔میڈیسن کے ماہر اور بفیلو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ہرزبرگ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اُس وقت افیون اور مارفین کا استعمال پہلے سے ہی ادویات میں کیا جاتا تھا اس لیے لوگوں کو معلوم تھا کہ اوپیوائڈز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائیکاٹری کے پروفیسر کیتھ ہمفریز کا کہنا ہے کہ ’مسلسل استعمال سے آپ ان چیزوں کے عادی اس وقت بھی ہو جاتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے اس لیے دوا ساز کمپنیاں ایسی درد کش ادویات کی تلاش میں تھیں جو نشے کا باعث نہ ہوں۔سو ابتدا میں کچھ لوگوں کو لگا کہ شاید ہیروئن لوگوں کو اپنا عادی نہ بنائے اور اس کے مضر اثرات بھی کم ہوں گے۔
جون 2020 میں ‘دی کنورسیشن’ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، کیمیلو جوزے سیلا یونیورسٹی اور الکالا یونیورسٹی کے فارماسولوجی کے پروفیسر فرانسسکو لوپیزمنوز اور سیسیلیو الامو گونزالیز لکھتے ہیں ’سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ ہیروئن کے استعمال سے تپ دق کے مریضوں کو کھانسی میں آرام ملتا تھا اور مریض کو نیند آتی تھی۔‘
اس کے باوجود، ہیروئن کی دریافت کے بعد ابتدائی برسوں میں طبی میدان میں اس کے لیے زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔پھر سنہ 1897 میں جب جرمن دوا ساز کمپنی بائر کی تحقیقی ٹیم پروفیسر ہینرک ڈریسر کی سربراہی میں مورفین اور کوڈین (ایک اوپیوائڈ) کے ایسے متبادل کی تلاش میں تھی جو سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے کام آ سکے تو اس کے ایک رکن نے مورفین اور کوڈین کے بجائے ڈائیسیٹیلمورفین استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔محققین نے اسے پہلے جانوروں، پھر بائر کمپنی کے ملازمین اور آخر میں برلن میں عام لوگوں پر آزمایا۔