سچ خبریں: بیٹا فون کم استعمال کرو، آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔۔۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو آج کل تقریباً تمام مائیں ہی اپنے بچوں کو بولتی ہوں گی۔
آج آپ جس گھر میں بھی چلے جائیں بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔
بچوں کو کس عمر میں اسمارٹ فون دینا چاہیے؟ یہ بحث کافی عرصے سے چلی آرہی ہے،سوشل میڈیا پر آئے دن کئی کہانیاں بھی نظر آتی ہیں کہ بچوں نے اسمارٹ فون کی مدد سے کبھی پورے گھر کے لیے کھانا آرڈر کر دیا تو کھبی کسی نے گھر ہی بیچنے کے لیے انٹرنیٹ پر اشتہار لگا دیا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نایاب فواد کی بیٹی چھ سال کی ہے۔ اس وقت گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے ان کی بیٹی زیادہ وقت گھر میں ہی گزارتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کے لیے دنیا کا پہلا اسمارٹ فون تیار کر لیا گیا
نایاب نے بھی بتایا کہ کس طرح اُن کی بیٹی صبح ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک فون ہاتھ میں پکڑ کے رکھتی ہیں۔
’اب آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت وہ فون پر کارٹونز دیکھتی اور گیمز کھیلتی رہتی ہے۔ اگر اُس سے کسی طرح فون ہاتھ سے لے بھی لوں تو وہ اتنا روتی ہے کہ مجبوراً مجھے فون اُس کو دینا پڑتا ہے۔ وہ فون چارج کرنے کے لیے بھی نہیں دیتی۔‘
نایاب نے بتایا کہ وہ اس وقت تمام جتن کر رہی ہیں کہ اُن کی بیٹی فون کم استعمال کرے مگر اُن کو بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ شروع سے ہی بچوں کے سمارٹ فون کے زیادہ استعمال کے خلاف تھیں مگر اُنھیں یہ علم نہیں تھا کہ اُن کی اپنی بیٹی اس حد تک فون استمعال کرے گی۔
’میں آغاز میں صرف اسے کھانا کھلانے کے لیے فون پر کارٹون لگا کر دیتی تھی کہ وہ آرام سے کھانا کھا لے مگر دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے فون کے بغیر کھانا کھانا ہی چھوڑ دیا۔ جس سے مجھے انداز ہو گیا کہ اس کو واپس نارمل روٹین پر لانا پڑے گا۔‘
نایاب کا ایک سال کا بیٹا بھی ہے مگر اپنی بیٹی کی سمارٹ فون کی لت دیکھ کر اُنھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو سمارٹ فون نہیں دیں گی۔
ایک عام انسان ہی نہیں بلکہ بہت سی مشہور شخصیات بھی جدید دور کے اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون دیا جائے یا نہیں۔
مثلاً معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ انھیں پچھتاوا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو 13 برس کی عمر میں فون استعمال کرنے کی اجازت دی۔
ایک امریکی غیرسرکاری تنظیم ’سیپین لیب‘ نے اپنی ایک تحقیق میں کہا کہ بچوں کا کم عمری میں سمارٹ فونز استعمال کرنا مستقبل میں ان کے لیے نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
راوں سال مئی میں اس تحقیق کے آنے کے بعد شاؤمی انڈیا کے سابق سی ای او منو کمار جین نے اس تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے والدین پر زور دیا کہ وہ سمارٹ فون کو بچوں کی پہنچ سے دُور رکھیں۔
مزید پڑھیں: سال 2021 میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اسمارٹ فون
کئی تحقیقات میں بچوں کی نظر میں مسائل کی بڑی وجہ بھی فون کے زیادہ استمعال کو قرار دیا گیا ہے۔
سیول میں واقع چونم نیشنل یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکڑز نے 7 سے 16 سال کے 12 لڑکوں پر اپنی تحقیق کی۔
ماہرین نے ان لڑکوں کو روزانہ چار سے آٹھ گھنٹے تک فون استعمال کرنے اور فون کو اپنی آنکھوں سے آٹھ سے 12 انچ کے فاصلے تک رکھنے کو کہا۔ دو ماہ بعد ان میں سے نو لڑکوں میں بھینگے پن کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
ماہرین نے اپنی تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا کہ مسلسل فون پر نظر رکھنے سے بچوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑنے لگتی ہیں اور بالآخر وہ بھینگے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مگر اس تحقیق کے باوجود روز بروز بچوں کے سمارٹ فون کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا والدین سوشل میڈیا پر تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین اپنے کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے خود ہی بچوں کے ہاتھ میں فون پکڑا دیتے ہیں تاکہ وہ اُن کو تنگ نہ کریں۔
ہم نے کئی والدین سے یہ سوال کیا کہ وہ بچوں کو آخر سمارٹ فون کیوں دیتے ہیں؟ بعض نے کہا کہ والدین ہر وقت خود فون استعمال کرتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے بچوں کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ وہ فون استمعال کریں۔
کچھ والدین نے بتایا کہ بہت سی مائیں بچوں سے جان چھڑانے کے لیے اُن کو فون پر گیمز لگا کر دے دیتی ہیں تاکہ آسانی سے اپنے گھر کے دیگر کام کر لیں۔
بہت سے والدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بچوں سے زیادہ والدین قصور وار ہیں جو بچوں کو اہمیت دینے کے بجائے گھر کے کاموں کو اہمیت دیتے ہیں۔
مگر یہاں یہ سوال آتا ہے کہ بچوں کو کتنی دیر موبائل فون دینا چاہیے اور اس کی لت لگنے سے انھیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔
بچوں کو فون کی لت سے کیسے بچایا جائے؟
چائلڈ سائیکولوجسٹ سارہ لغمانی نے بتایا کہ اُن کے پاس آئے دن اس طرح کے بہت سے کیس آ رہے ہیں جہاں بچہ آٹھ آٹھ گھنٹے تک سمارٹ فون استعمال کرتا ہے اور اُس کے رویے میں خاصی تبدیلی آ رہی ہے۔
’ہمارے پاس ایسے بچے آتے ہیں جو کسی بھی چیز پر صحیح سے دھیان نہیں دیے پا رہے، ایک دم سے غصہ کرنے لگتے ہیں، فون لینے پر رونا شروع کر دیتے ہیں، بدتمیزی کرتے ہیں۔‘
سمارٹ فون کے مضر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سارہ نے بتایا جس طرح کسی بھی چیز کی لت نقصان دہ ہو سکتی ہے، اسی طرح زیادہ فون استعمال کرنے سے بھی بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
’جب بچوں کی بات کی جائے تو اُن کا دماغ بہت کمزور ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اس عمر میں والدین اپنے بچوں کے دماغ کو مستقبل کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔
’ایسے میں بچے کی دنیا اگر سمارٹ فون کے آس پاس ہی گھومتی رہے گی تو ایسے میں وہ اپنی اصل دنیا نہیں دیکھ سکے گا اور اس سے دور ہی رہے گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بچے آج کل سمارٹ فون کو ہی اپنا دوست سمجھنے لگے ہیں کیونکہ اُنھیں ایسا محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ اس میں نظر آنے والی دنیا سے خود کو جوڑ لیتے ہیں۔‘
سارہ نے اس بات پر زور دیا کہ والدین کو بچوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی اپنے سوشل سرکل کو بڑھا سکیں۔
بچوں کے سمارٹ فون کے استمعال کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے؟
سارہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سمارٹ فون کا استعمال مکمل طور پر ختم کر دینا بھی حل نہیں کیونکہ ایک دم بچوں سے فون لے لینے سے اُن کی دماغی صحت پر منفی اثر پڑے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ
گھر میں ایسا ماحول بنائیں، جس میں والدین بچوں کے سامنے کم سے کم موبائل فون استعمال کریں، کیونکہ بچے بڑوں کو دیکھ کر ہی چیزیں سیکھتے ہیں۔ بچوں کو کم فون استعمال کرنے کا تب ہی بولیں جب آپ خود ایسا کرتے ہوں۔
بچوں کو پڑھاتے وقت والدین فون کی بجائے بچوں پر دھیان رکھیں۔
بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باتیں کریں۔ اُن کے ہاتھ سے فون کھینچنے کی بجائے پیار سے بات کر کے فون لیں۔
بچے کو باہر گھومنے کے لیے لے کر جائیں، اُسے پارک میں دوسرے بچوں سے ملوائیں۔
بچوں کو گھر میں ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں، جس سے اُن کا فون استعمال کرنے کی طرف خیال نہ جائے۔