اسلام آباد: (سچ خبریں) اوکلا کے اسپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں موبائل اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں سب سے کم 12 فیصد پر رہا۔
انڈیکس میں پاکستان کو موبائل انٹرنیٹ کی رفتار میں 111 ممالک میں سے 100 اور براڈ بینڈ اسپیڈ میں 158 ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں صارفین کو سست رفتار انٹرنیٹ، واٹس ایپ پر تصاویر، ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنے میں دشواری اور وقفے وقفے سے رابطے کے مسائل کا سامنا ہے۔
ملک میں انٹرنیٹ کی مسلسل بندش کے ساتھ ساتھ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) تک محدود رسائی کی اطلاعات بھی شامل ہیں، جن کا استعمال بہت سے پاکستانی دیگر محدود ویب سائٹس کے علاوہ ایکس تک رسائی کے لیے بھی کرتے ہیں۔
ورلڈ پاپولیشن کے جائزے کے مطابق، جس میں اوکلا کے اسپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس اور کیبل کے اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا ہے، پاکستان کی اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 7.85 ایم بی پی ایس تھی، جس میں موبائل ڈاؤن لوڈ کی اوسط رفتار 19.59 ایم بی پی ایس اور اوسط براڈ بینڈ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 15.52 ایم بی پی ایس تھی۔
ملک میں ڈیجیٹل منظر نامے اور انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق مئی 2023 تک پاکستان دنیا میں انٹرنیٹ کی سب سے کم رفتار والے ممالک میں سے ایک تھا۔
’فائر وال‘ کی تنصیب کے بارے میں کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد، جو انٹرنیٹ میں خلل کا سبب بن سکتا ہے، وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اگست میں تصدیق کی تھی کہ حکومت سائبر سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے ’ویب مینجمنٹ سسٹم‘ کو اپ گریڈ کر رہی ہے۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن شازہ فاطمہ خواجہ سے جب فائر وال کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، حکومت ایک ویب مینجمنٹ سسٹم چلا رہی ہے، اب نظام کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی، نگرانی اور نگرانی کی ٹیکنالوجی کے استعمال میں زیادہ شفافیت لائیں۔
انسانی حقوق کے گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ مواد کو روکنے، سست کرنے اور انٹرنیٹ کی رفتار کو کنٹرول کرنے والی نگرانی اور نگرانی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پاکستانی حکام کی غیر شفافیت تشویش ناک ہے۔
لیکن حکومت نے بارہا ایسے دعوؤں کی تردید کی ہے، شازہ فاطمہ کہتی ہیں کہ کسی ملک کی سائبر سیکیورٹی پر کام کرنے میں کوئی متنازع بات نہیں ہے، پوری دنیا سائبر سیکیورٹی کے مختلف طریقہ کار استعمال کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ پاکستان کو روزانہ لاکھوں سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کا پتہ لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
گزشتہ ماہ وفاقی وزارت داخلہ نے وی پی این کے غیر منظم استعمال پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد پرتشدد سرگرمیوں کو آسان بنانے، فحش اور گستاخانہ مواد تک رسائی کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ دہشت گرد پاکستان میں پرتشدد سرگرمیوں اور مالی لین دین میں سہولت فراہم کرنے کے لیے وی پی این کا تیزی سے استعمال کر رہے ہیں۔
پی ٹی اے (جو تکنیکی خرابی کی وجہ سے وی پی این تک رسائی کو محدود کرنے سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے) نے شہریوں پر زور دیا تھا کہ وہ 30 نومبر تک وی پی این رجسٹرڈ کرالیں جس کے بعد غیر رجسٹرڈ کنکشن بلاک کردیے جائیں گے۔
وزارت آئی ٹی کے ذرائع نے بتایا کہ محکمہ داخلہ نے قانونی گنجائش کی کمی کی وجہ سے دسمبر کی ابتدا میں اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔
ذرائع کے مطابق الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (پیکا) 2016 کی شقوں کی تشریح کا مسئلہ تھا اور بالآخر یہ نوٹ کیا گیا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ کا مطالعہ کمزور تھا، عدالتیں وی پی این کو کام کرنے کی اجازت دیں گی، اسی لیے درخواست واپس لی گئی۔