سچ خبریں:منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنی کابینہ کی تشکیل کے دوران مورگان اورٹگاس کو مشرق وسطی میں امن کے لیے صدر کے خصوصی ایلچی کے نائب کے طور پر نامزد کیا ہے، تاہم اس تقرری کے حوالے سے ٹرمپ کی غیر معمولی زبان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس فیصلے سے زیادہ خوش نہیں ہیں اور یہ قدم ریپبلکنز کے دباؤ اور اورٹگاس کے اثر و رسوخ کے تحت اٹھایا گیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعہ کی شب سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں اعلان کیا کہ مورگان اورٹگاس کو اسٹیو وٹکاف کے نائب کے طور پر مقرر کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے پیغام میں یہ واضح کیا کہ یہ تقرری ان کی ذاتی خواہش کے بجائے ریپبلکنز کے دباؤ کے نتیجے میں کی گئی ہے، جو اورٹگاس کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی کابینہ کے امیدوار؛ جی حضوری کرنے والے
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ماضی میں اورٹگاس تین سال تک میرے فیصلوں کی مخالفت کرتی رہیں لیکن امید ہے کہ انہوں نے اس سے سبق حاصل کیا ہو گا،یہ فیصلہ میری ذاتی ترجیح نہیں، بلکہ ریپبلکنز کی درخواست پر کیا گیا ہے، دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو ہمیشہ خود کو ایک مضبوط اور خودمختار رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نے اپنی حالیہ تقرری میں غیر معمولی اعتراف کیا کہ وہ دباؤ اور اثر و رسوخ کے تحت مجبور ہو کر مورگان اورٹگاس کو خاورمیانہ امور کے لیے نائب خصوصی ایلچی مقرر کر رہے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مورگان اورٹگاس امریکی خارجہ پالیسی کی ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ 42 سالہ اورٹگاس نیوی ریزرو میں انٹیلیجنس افسر ہیں اور ماضی میں ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت (2016-2020) میں مائیک پومپیو کے تحت وزارت خارجہ کی ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔
اس سے قبل وہ امریکی محکمہ خزانہ میں مالی انٹیلیجنس تجزیہ کار، اور USAID میں پبلک ریلیشنز افسر رہ چکی ہیں۔ 2010 میں، انہیں سعودی عرب میں امریکی سفارتخانے کے خزانہ امور کی معاون مقرر کیا گیا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، اورٹگاس نے اپنے شوہر جوناتھن وائنبرگر سے شادی کے بعد یہودیت قبول کی، وہ اپنی خارجہ پالیسی کے تجربے اور اسرائیل نواز پالیسیوں کے لیے مشہور ہیں۔
انہوں نے ایران مخالف پالیسیوں، جیسے جوہری معاہدے سے علیحدگی، اقتصادی پابندیاں، اور ایران کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں، کی بھرپور حمایت کی۔
ٹرمپ اور اورٹگاس کے تعلقات
ٹرمپ نے تقرری کے اعلان کے دوران ذکر کیا کہ اورٹگاس نے تین سال تک ان کی مخالفت کی، لیکن امید ہے کہ انہوں نے اس سے سبق حاصل کیا ہوگا۔
اورٹگاس 2016 کی ریپبلکن پرائمری انتخابات کے دوران ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو غیر سنجیدہ اور ان کے رویے کو نفرت انگیز قرار دے چکی ہیں۔ تاہم، ٹرمپ کے صدارتی امیدوار بننے کے بعد، انہوں نے ان کی حمایت کی اور وزارت خارجہ کی ترجمان مقرر ہوئیں۔
2024 کی پرائمری میں بھی، اورٹگاس نے نکی ہیلی کی حمایت کی، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ٹرمپ کے قریبی حلقے کا حصہ نہیں ہیں اور ان کی تقرری ٹرمپ کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ ریپبلکنز کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مورگان اورٹگاس کو خاورمیانہ میں امن کے لیے نائب خصوصی ایلچی کے طور پر تقرر کرنے کا فیصلہ ان کے الفاظ میں ایک واضح ناپسندیدگی کے ساتھ سامنے آیا۔ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ یہ تقرری ان کی ذاتی خواہش نہیں بلکہ ریپبلکن پارٹی کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مورگان اورٹگاس ریپبلکن پارٹی کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کے قریب ہیں، جن میں مارکو روبیو (ممکنہ وزیر خارجہ)، لیندسی گراہم (ریپبلکن سینیٹر)، مائیک والز (ممکنہ مشیر قومی سلامتی)، اور رچرڈ گرینل (ٹرمپ کے خصوصی ایلچی) شامل ہیں۔ اورٹگاس کی ٹرمپ کے داماد اور مشیر اعلیٰ جیرڈ کشنر کے ساتھ پہلی مدت صدارت میں قریبی شراکت داری رہی، جو اب بھی جاری ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں یہ واضح کیا کہ اورٹگاس کی تقرری ان کی مرضی سے نہیں بلکہ ریپبلکنز کے اصرار پر کی گئی ہے، جس نے ان کے اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان اختلافات کو نمایاں کیا ہے۔
ان کے الفاظ، یہ فیصلہ میں نے اپنے لیے نہیں بلکہ ریپبلکنز کے لیے کیا ہے۔ اس اختلاف نے نہ صرف ٹرمپ کی دلخوری کو ظاہر کیا بلکہ ان کی کابینہ میں موجود ممکنہ سیاسی تضادات کی ابتدائی جھلک بھی پیش کی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ مورگان اورٹگاس کی تقرری نہ صرف ٹرمپ کی ذاتی ناپسندیدگی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ان کی کابینہ میں موجود متضاد سیاسی رجحانات کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ یہ اختلافات وقت کے ساتھ مزید واضح ہو سکتے ہیں، جو ٹرمپ کی دوسری ممکنہ مدت صدارت کے لیے چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی کابینہ کے خیالات اور پالیسیاں
یہ تقرری خاورمیانہ میں امریکی پالیسی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہ ٹرمپ کے لیے داخلی تنازعات اور سیاسی دباؤ کے مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے۔