سچ خبریں:اسرائیلی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے خواہشمند ہیں، جس پر تل ابیب میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
اسرائیلی چینل کان کی رپورٹ کے مطابق، مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی نے اسرائیل کو خطے میں اپنی جارحانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دی ہے، جس میں شام بھی ایک اہم ہدف رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل شام کے ٹکڑے کرنے کا خواہاں
اسرائیلی سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مطابق، تل ابیب کی قیادت اس امکان پر انتہائی پریشان ہے کہ اگر امریکی فوج شام سے نکلتی ہے تو یہ نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے، بلکہ امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز (قسد) کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
تل ابیب کے پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ نے شام چھوڑ دیا تو کرد فورسز کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو جائے گا نیز ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کو مزید تقویت ملے گی۔
اسرائیل بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد سے شام میں فوجی مداخلت میں مصروف ہے اور شامی فوج کے اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کو مسلسل نشانہ بناتا آیا ہے۔
تل ابیب کا ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر امریکی افواج شام سے نکلتی ہیں تو جنوب میں جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے قریب اسرائیلی قبضے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، کیونکہ مزاحمتی گروہ اسرائیلی ٹھکانوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شام کی تقسیم کا خواب: دمشق پر صہیونی ریاست کے حملے کیوں نہیں رُک رہے؟
تل ابیب کے عسکری حلقوں میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ شام میں امریکی فوج کی غیر موجودگی "جولان کے علاقے میں سرگرم مزاحمتی قوتوں” کو متحرک کر سکتی ہے، جو اسرائیل کے لیے نیا چیلنج ہوگا۔