کابل (سچ خبریں) طالبان کی جانب سے متعدد اضلاع پر قبضے کے بعد اب کابل کی جانب پیش قدمی جاری ہے اور طالبان نے کابل کے 2 قریبی اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ بڑے علاقوں پر قبضے کے لیئے شدید جنگ جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے بعد سے طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی جاری ہے اور اب تک انہوں نے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔
تازہ ترین پیش قدمی طالبان کی جانب سے کابل کے نواح میں کی گئی ہے جہاں انہوں نے کابل کے 2 قریبی اضلاع پر قبضہ کرلیا جبکہ کابل کے قریب ترین شہر چاریکار پر قبضے کے لیے جنگ جاری ہے۔
افغان ٹی وی کے مطابق طالبان نے کابل سے ملحقہ صوبے پروان کے 2 اضلاع سیاہ گرد اور شنواری پر قبضہ جمالیا ہے اور اب وہ کابل سے 63 کلومیٹر دور چاریکار شہر پہنچ چکے ہیں، چاریکار میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
اس کے علاوہ طالبان کی جانب سے کابل سے 50 کلومیٹر دور درہِ غوربند پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر غوربند کے درے پر توجہ نہ دی گئی تو بہت جلد طالبان چاریکار شہر میں داخل ہوجائیں گے۔
دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا وقت قریب آنے لگا، بدلتی صورتحال کے پیش نظر بھارت طالبان سے بات چیت کرنے پر تذبذب کا شکار ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسٹریٹجک امور کے ماہرین نے کہا کہ اب جب افغانستان میں طالبان ایک بار پھر مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور جب امریکی فوجیوں کی واپسی کا وقت قریب آرہا ہے تو بھارت کے سامنے ایک نیا چیلنج ہے کیونکہ گزشتہ 20 سال میں بھارت نے مختلف منصوبوں اور امداد کی شکل میں افغانستان میں ہزاروں کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔
صرف نومبر 2020ء میں بھارت نے افغانستان میں 150 نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، بہت سارے پروجیکٹس پرکام جاری ہے۔
گزشتہ ماہ یورپی یونین کے نائب صدر بورویل کے ساتھ مشترکہ بیان میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھاکہ بھارت افغانستان میں کسی بھی اسلامی امارت کی حمایت نہیں کرے گا لیکن بدلی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بھارت میں اس بات پر بھی غور فکر جاری ہے کہ ستمبر کے مہینے میں جب امریکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی اس صورتحال میں بھارت کا کیا مؤقف ہونا چاہیے؟ یہ بات واضح ہے کہ بھارت اب اپنی سابقہ پالیسی میں نرمی دکھا رہا ہے۔