سچ خبریں:لبنان کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی فوج کے طویل المدتی قیام کے امکان کو لبنان کی جغرافیائی صورتحال، مزاحمت کے مضبوط اسلحے، صہیونی مخالف عوامی مزاج اور جنوبی لبنان کے مخصوص سماجی ڈھانچے کے باعث مسترد کیا جا رہا ہے۔
لبنان میں 27 جنوری 2025 کو دو ماہ کی جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد، صہیونی فوج نے لبنانی فوج کی مکمل تعیناتی نہ ہونے اور حزب اللہ کے دریائے لیتانی کے جنوب میں دوبارہ منظم ہونے جیسے بے بنیاد دعوے بنا کر مکمل انخلا سے انکار کر دیا۔
عوامی بغاوت اور اسرائیلی قبضے کے خلاف اجتماعی واپسی
اس وعدہ خلافی کے جواب میں جنوبی لبنان کے عوام نے اجتماعی طور پر اپنی زمینوں پر واپسی کا فیصلہ کیا، تاکہ صہیونی فوجیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے نکالا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونیوں کا جنوبی لبنان پر قبضے کو مستحکم کرنے کا منصوبہ
سیاسی کمزوری؛لبنانی قیادت کا معذرت خواہانہ رویہ
لبنانی صدر جوزف عون اور وزیر اعظم نواف سلام نے جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کے مکمل نفاذ کا وعدہ کیا تھا، لیکن حالیہ پیشرفت میں وہ اسرائیل کی خواہش پر جنگ بندی کی مدت 18 فروری تک بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں، جو ایک کمزور حکمت عملی سمجھی جا رہی ہے۔
تل ابیب کے عزائم؛غزہ کے بعد لبنان اور مغربی کنارے میں کشیدگی؟
لبنانی عوام اور علاقائی ماہرین کے لیے یہ سوال اہم ہے کہ کیا اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں مزید قیام کا ارادہ رکھتی ہے؟
– کیا اسرائیل، غزہ میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد، دوسرے محاذوں پر کشیدگی بڑھانا چاہتا ہے؟
– کیا واشنگٹن اور دمشق میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد، تل ابیب لبنان میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرے گا؟
– کیا اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی خطے میں طاقت کے توازن کو بدلنے کی کوشش ہے؟
مزاحمت کی تیاری اور اسرائیلی فوج کی غلط فہمی
2024 کے آخر میں لبنان میں دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران مغربی میڈیا اور اسرائیلی تھنک ٹینکس نے مسلسل حزب اللہ کی کمزوری کا بیانیہ پھیلانے کی کوشش کی، تاکہ بیروت میں سیاسی صورتحال کو اسرائیل کے حق میں بدلا جا سکے۔ لیکن لبنانی پارلیمنٹ میں صدارتی ووٹنگ کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ مزاحمتی بلاک اب بھی طاقتور ہے۔
حزب اللہ کی فوجی برتری اور اسرائیل کے لیے خطرات
فوجی ماہرین کے مطابق، حزب اللہ اپنے اصل فوجی وسائل ابھی تک استعمال نہیں کر چکا ہے اور اگر اسرائیل لبنان-شام رابطے کو توڑ کر مزاحمت کو کمزور سمجھتا ہے، تو اسے تل ابیب اور حیفا میں شدید جوابی حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اگر اسرائیل نے لبنان میں جنگ دوبارہ چھیڑنے کی کوشش کی، تو نہ صرف اس کی داخلی سیکیورٹی بحران کا شکار ہوگی بلکہ:
– سعودیہ کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی امریکی کوششیں متاثر ہوں گی۔
– مقبوضہ شمالی علاقوں کے اسرائیلی شہریوں کی واپسی میں مزید تاخیر ہوگی۔
واشنگٹن اور یورپی ثالثوں کا دوغلا پن
جنگ بندی سے قبل امریکی ایلچی آموس ہوکشٹائن نے پیرس، دوحہ اور قاہرہ کے تعاون سے لبنان میں ایک مستقل جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔ لیکن لبنانی مزاحمت کے حامیوں کا شروع سے یہ ماننا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کا اصل مقصد صرف اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے۔
حالیہ صورتحال میں، جب اسرائیل نے جنوبی لبنان سے پسپائی سے انکار کیا، تو واشنگٹن نے بجائے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے، الٹا اسرائیلی اقدامات کی تعریف کی اور جنگ بندی میں مزید توسیع کی حمایت کی۔
فرانس نے بھی بیان بازی پر اکتفا کیا اور کسی عملی دباؤ کے بجائے اسرائیل کی پسپائی سے متعلق مؤثر کارروائی کرنے سے گریز کیا۔
لبنان کی حفاظت صرف مزاحمتی تحریک کے ہاتھ میں
اس صورتحال نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ لبنانی عوام اور سرحدوں کی حفاظت کی اصل قوت صرف مزاحمت ہی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں اگر حزب اللہ کی دفاعی صلاحیتیں نہ ہوتیں، تو آج لبنان بھی شام جیسی جنگ زدہ ریاست میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔
مزید پڑھیں: جنوبی لبنان کی صورتحال سے صہیونیوں میں خوف و ہراس
لبنانی مزاحمتی تحریک نہ صرف ملک کی آئینی اور جغرافیائی خودمختاری کا تحفظ کر رہی ہے بلکہ بیرونی قوتوں کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھی روکے ہوئے ہے۔
مزاحمتی تحریک کی موجودگی اسرائیلی قبضے کے خلاف دفاع کی ضمانت
حالیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ لبنانی عوام کو اپنے حکمرانوں، جیسے میشل عون یا نواف سلام، پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ صہیونی جارحیت کے خلاف مزاحمت ہی ان کے مکمل انخلا کی حقیقی ضمانت ہے۔