تل ابیب (سچ خبریں) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا اقتدار آخری مراحل میں پہونچ چکا ہے اور اب انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیئے اسرائیلی سیاستدان متحد ہوگئے ہیں اور کسی بھی وقت انہیں حکومت سے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو عہدے سے ہٹانے اور سیاست میں تبدیلیاں لانے کے لیے اسرائیلی سیاستدانوں کے اتحاد کا قیام آخری مراحل میں پہنچ گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان کے پاس رات 12 بجے تک کا وقت ہے کہ وہ ایک متبادل گورننگ اتحاد قائم کریں جس سے بی بی کے نام سے مشہور دائیں بازو کے رہنما کی حکومت کا خاتمہ ہوگا جس نے گزشتہ 12 سالوں سے اسرائیل پر حکومت کی ہے۔
اس کی قیادت سابقہ ٹی وی اینکر یائر لاپڈ کر رہے ہیں جو سیکولر سینٹرسٹ ہیں اور جنہوں نے چند روز قبل ہی ایک ارب پتی دائیں بازو کے مذہبی قوم پرست نفتالی بینیٹ کی اہم حمایت حاصل کی تھی۔
نفتالی بینیٹ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اتحادیوں کی مذاکراتی ٹیم نے پوری رات بیٹھ کر اتحادی حکومت بنانے کی سمت پیشرفت کی ہے۔
120 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 61 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ان کے غیر متوقع اتحاد میں انہیں بائیں بازو اور دائیں بازو کی جماعتوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا اور امکان ہے کہ انہیں عرب اسرائیلی سیاستدانوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری جیسے فلیش پوائنٹ پر گہرے نظریاتی اختلافات کے باوجود 71 سالہ بینجمن نیتن یاہو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے گروپ بندی کو متحد ہونا پڑے گا۔
واضح رہے کہ بینجمن نیتن یاہو طویل ترین عرصے تک اسرائیل کے وزیرِ اعظم رہنے والے شخص ہیں اور اقتدار پر اپنی مضبوط گرفت کے باوجود اُن کا دور مسائل سے خالی نہیں رہا ہے۔
بینجمن نیتن یاہو کو کرپشن الزامات کے تحت تحقیقات کا بھی سامنا رہا ہے اور نومبر 2019 میں ان پر اعتماد مجروح کرنے، رشوت اور فراڈ کے فردِ جرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔ اقتدار سے بے دخل ہونے کی صورت میں وہ جیل بھی جا سکتے ہیں۔