سچ خبریں: امریکی جریدے نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یوکرین اور اسرائیل کو مسلسل ہتھیاروں کی فراہمی، امریکی فوج کی عسکری طاقت کو کمزور کر رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پینٹاگون کے عہدیدار اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اسرائیل اور یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی امریکہ کی فوجی صلاحیت اور ذخائر کو کم کر رہی ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر لڑنے کی طاقت نہیں : ہیرس
نیویارک ٹائمز کے مطابق، بائیڈن حکومت یوکرین اور اسرائیل کو ماہانہ، ہفتہ وار، اور بعض اوقات روزانہ کی بنیاد پر عسکری امداد فراہم کر رہی ہے نیز سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
گزشتہ جولائی میں، امریکی وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ اس ملک کے صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک واشنگٹن نے یوکرین کو 56.1 ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد فراہم کی ہے۔
بائیڈن کی صدارت کے اختتامی ایام قریب آنے کے ساتھ ہی، واشنگٹن کی جانب سے یوکرین کو مزید عسکری امداد کا انحصار نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج پر ہے۔
بائیڈن کی ممکنہ جانشین اور ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار، کمالا ہیرس کے جیتنے کی صورت میں، بائیڈن کی یوکرین پالیسی کے تسلسل کا امکان ہے۔
دوسری جانب، اگر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوئے، تو حالات مختلف ہوں گے، کیونکہ ٹرمپ کئی بار یوکرین کو مالی اور عسکری امداد ختم کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق، فروری 2022 میں یوکرین جنگ کے آغاز سے اب تک، امریکہ نے یوکرین کو 55.4 ارب ڈالر سے زیادہ کی مدد فراہم کی ہے۔
اس رپورٹ میں دفاعی میزائل، توپ خانے، مارٹر سسٹمز، اینٹی ٹینک اور اینٹی شپ میزائل، ٹینک، ہیلی کاپٹر، ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کی فہرست شامل ہے۔
پینٹاگون نے حال ہی میں یوکرین کے لیے 1.7 ارب ڈالر کے نئے عسکری امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں زیادہ تر فضائی دفاعی میزائل، توپ خانے کے گولے، مارٹر، ہلکے ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد شامل ہیں۔ یہ پیکیج، اگست 2021 سے یوکرین کے لیے فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کا 62واں پیکیج ہے۔
مزید پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں بحران پیدا کرنے کے بحران زدہ امریکی معیشت پر اثرات
اس سے پہلے، یوکرین کے لیے عسکری امداد کے پیکیج کو کانگریس کی منظوری کے لیے شدید چیلنجز کا سامنا رہا، مثال کے طور پر، 61 ارب ڈالر کا ایک پیکیج، جسے ریپبلکن پارٹی کی مخالفت کا سامنا تھا، کئی مہینوں تک امریکی کانگریس میں تعطل کا شکار رہا، اور آخرکار اپریل میں بڑی جدوجہد کے بعد منظور ہوا۔