کابل (سچ خبریں) افغان فورسز نے اتوار کے روز سڑکوں پر شدید لڑائی لڑی اور طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی جبکہ جنگجوؤں نے اپنے ملک گیر حملوں کو بڑھاتے ہوئے بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہرات میں سیکڑوں کمانڈر تعینات کردیے گئے جبکہ لشکر گاہ شہر میں حملوں کو روکنے کے لیے مزید فوجی دستوں کو طلب کرلیا گیا ہے اور افغان فوج کے فضائی حملوں میں درجنوں افراد سڑکوں پر ہلاک ہوئے۔
افغانستان میں مئی کے آغاز سے لڑائی میں اس وقت اضافہ ہوا جب غیر ملکی افواج نے انخلا شروع کیا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔
طالبان نے بڑے دیہاتی رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں، طلوع آفتاب سے قبل رن وے پر 2 راکٹ داغے جانے کے بعد اتوار کے روز افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار سے پروازیں منسوخ کردی گئیں۔
طالبان نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے جنگی طیارے، مذکورہ ایئرپورٹ سے ان کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے تھے۔
ایئرپورٹ کے چیف مسعود پشتون نے بتایا کہ رن وے کی مرمت کے بعد اتوار کی شام پروازیں بحال کردی گئی تھیں۔
طالبان کے شہر پر قبضے کو روکنے، لاجسٹک اور فضائی معاونت برقرار رکھنے کے لیے یہ سہولت انتہائی اہم ہے جو جنوبی افغانستان کے بڑے علاقوں کے لیے فضائی احاطہ بھی فراہم کرتا ہے۔
راکٹ اس وقت گرے جب طالبان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ سمیت دیگر 2 صوبائی دارالحکومتوں میں داخلے سے محض چند قدم دوری پر تھے۔
ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطااللہ افغان نے کہا کہ ‘شہر کے اندر لڑائی جاری ہے اور ہم نے اسپیشل فورسز کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔
افغان افواج عسکریت پسندوں کو شہروں سے دور رکھنے کے لیے زیادہ تر فضائی حملوں پر انحصار کر رہی ہیں حالانکہ اس سے گنجان آباد علاقوں میں شہریوں کے نشانہ بننے کا خطرہ ہے۔
2 لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ شہر کے ہر حصے پر بمباری کی گئی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان لڑائی گلیوں میں جاری ہے۔
دوسری جانب لشکر گارہ میں انسانی امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتالوں میں درجنوں زخمی لائے گئے اور وہ اپنی گنجائش کے 90 فیصد تک بھر گئے ہیں۔
علاوہ ازیں ہرات شہر کے مضافات میں لڑائی جاری ہے اور رات گئے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے، ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا کہ حملوں میں 100 عسکریت پسند مارے گئے لیکن ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق ہونا مشکل ہے۔