سچ خبریں: میدانی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ شمالی محاذ پر حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کے اقدامات کوئی مؤثر دفاعی طاقت نہیں بنا سکے ہیں۔
حزب اللہ نے اپنی تشکیل سے ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان کے دفاع کو اپنی بنیاد بنایا، جس کا نتیجہ 2000 میں اسرائیلی افواج کے لبنان سے انخلا کی صورت میں نکلا۔
یہ بھی پڑھیں: نصراللہ کے بارے میں صیہونی حکومت کے نمائندے کا تبصرہ
بعد کے سالوں میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تناؤ اکثر مکمل جنگ کے قریب پہنچا، جبکہ 2006 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی قرارداد سے یہ تنازع ختم ہوا۔
2006 کے بعد دونوں کے درمیان ایک غیر مستحکم بازدارندگی قائم رہی، جس میں راکٹ اور ڈرون حملے جاری رہے، مگر براہ راست جنگ نہیں ہوئی،تاہم، 7 اکتوبر کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے۔
گزشتہ ماہ جنوبی لبنان سے شمالی اسرائیل پر 1307 راکٹ داغے گئے جو غزہ پر صیہونی حملے کے آغاز کے بعد سب سے زیادہ تھے، حزب اللہ نے اسرائیلی فوجی اڈوں پر بھی ڈرون اور راکٹ حملے کیے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ حزب اللہ اب 2006 والی جماعت نہیں رہی اور اس کی فوجی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل اب ایک طرف 7 اکتوبر جیسے غافلگیرانہ حملوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف شمالی سرحدوں کی حفاظت کا خواہاں ہے تاکہ مقامی آبادی واپس اپنے گھروں کو جا سکے لیکن مناسب حکمت عملی اپنانا پیچیدہ معاملہ ہے۔
اسرائیلی حکام کے پاس چند آپشنز ہیں، جن میں سے کچھ حزب اللہ کے خلاف پیشگی حملے کو ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اس کے فوجی قوت کو ناقابل پیش گوئی مانتے ہیں اور محدود معلومات کی بنیاد پر حملے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہیں۔
غزہ جنگ اور فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں اسرائیل نے تباہی کی تھیوری کو اپنایا ہے، جس کے تحت غیر عسکری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا کر شہریوں کی مشکلات بڑھائی جاتی ہیں تاکہ مزاحمتی طاقتوں کے رویے کو قابو میں لایا جا سکے۔
تل ابیب اس تھیوری کے تحت کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؛ پہلا یہ کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی قیمت اتنی بڑھا دی جائے کہ دوسرے گروہ جو اسرائیل پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، عبرت حاصل کریں۔
دوسرا مقصد مزاحمت کو مشکل بنانا ہے اور آخر میں غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنا کر مزاحمتی گروہوں کی حمایت کو کمزور کرنا ہے۔
تاہم، حزب اللہ کے معاملے میں اس حکمت عملی کو اپنانا اتنا آسان نہیں ہے؛ اولاً، اسرائیل کے پاس حزب اللہ کی فوجی ترتیب اور اس کے میزائل دفاعی نظام کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ کہ حزب اللہ لبنان میں اکیلا فعال گروہ نہیں ہے، اور لبنان کے غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنانے کا مطلب لبنان کی تمام سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ دشمنی مول لینا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں، اسرائیل کے رہنما مزید دشمن پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
حال ہی میں، اسرائیل نے کنٹرول شدہ فضائی حملوں کے ذریعے حزب اللہ کے ساتھ ایک محدود جنگ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، تاکہ جنگ کے دائرہ کار کو بڑھائے بغیر کسی حد تک مدافعت حاصل کی جا سکے۔
ساتھ ہی اسرائیل نے میڈیا میں نفسیاتی جنگ کا بھی سہارا لیا ہے، جہاں اسرائیلی رہنما دھمکیاں دیتے رہے ہیں،اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ نے یہاں تک کہا کہاسرائیل لبنان کے ہر انچ پر حملہ کرے گا جہاں حزب اللہ کی موجودگی ہو اور لبنان کو پتھر کے دور میں واپس پہنچا دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعوے صرف میڈیا کی حد تک محدود ہیں۔
فی الحال، اسرائیل کے پاس دو راستے ہیں؛ ایک یہ کہ وہ اپنی مدافعت پر مبنی دھمکیوں کو برقرار رکھتے ہوئے حزب اللہ کے ساتھ موجودہ محدود جنگ کو جاری رکھے۔
تاہم، یہ راستہ مشکل ہے کیونکہ اسرائیل نے حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور لبنان کے شہریوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ہی مکمل جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیز کارروائیاں موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کو ناممکن بنا رہی ہیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف ایک مکمل جنگ شروع کرے تاکہ حزب اللہ کی فوجی کارروائیوں کو روک سکے لیکن یہ اقدام بھی ممکن نہیں، کیونکہ حزب اللہ کی دفاعی طاقت کم از کم قلیل مدت میں اس کو شکست سے بچا سکتی ہے اور حزب اللہ کے علاقائی اتحادیوں کی موجودگی میں اسے ختم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
خطے کی حقیقت اور مزاحمتی قوتوں کی طاقت کے پیش نظر، اسرائیل کے لیے واحد آپشن یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مزاحمت کی قیمت کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرے۔
مزید پڑھیں: امریکہ نے حزب اللہ کے بارے میں اسرائیل کو کیا کہا؟
اس پالیسی کے باوجود، اسرائیل کی کوششیں خواہ میڈیا میں ہوں یا لبنان کی فضا میں، اس کے لیے کوئی مؤثر ڈیٹرنس ثابت نہیں ہو سکی ہیں اور شمالی سرحدوں کا کنٹرول طویل عرصے سے اسرائیل کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔