واشنگٹن (سچ خبریں) امریکی صدر جو بائیڈن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے مابین اہم گفتگو ہوئی جس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے عثمانی دور حکومت میں آرمینیوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کا اعلان کردیا، جس کے بعد اب دونوں نیٹو اتحادیوں کے درمیان پہلے ہی سے کشیدہ تعلقات کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
جو بائیڈن نے جنوری میں صدارتی منصب سنبھالا تھا جس کے بعد طویل انتظار تھا کہ وہ ترک ہم منصب سے بھی فون پر رابطہ کریں گے جیسا کہ انہوں نے دیگر ممالک کے صدور سے کیا، امریکی صدر کی جانب سے یوم آرمینیائی یادگار سے ایک دن پہلے ترک صدر کو کال کی گئی۔
امید کی جارہی تھی کہ جو بائیڈن، وائٹ ہاؤس کے روایتی بیان سے ہٹ کر مؤقف اختیار کرتے ہوئے سرد تعلقات میں کمی لانے کی کوشش کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن نے آج ترکی کے صدر کے ساتھ بات چیت کی جس میں تعاون کے شعبوں اور اختلاف رائے کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کے ساتھ تعمیری تعلقات میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے تعلقات کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے جون میں ہونے والے نیٹو اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ملاقات کرنے پر اتفاق کیا۔
ترکی نے تسلیم کیا کہ خلافت عثمانیہ میں بہت سے آرمینی باشندے پہلی جنگ عظیم کے دوران جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔
خیال رہے کہ ہلاک ہونے والے آرمینی باشندوں کے بارے میں ترکی، ہلاکتوں کی تعداد پر اختلاف رکھتا ہے اور یہ کہ ان کی منظم طریقے یا نسل کشی نہیں کی گئی۔
ترک ایوان صدر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدور جو بائیڈن اور طیب اردوان نے باہمی تعلقات کے اسٹریٹجک کردار اور باہمی دلچسپی کے امور پر زیادہ سے زیادہ تعاون کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔
ترکی کی طرف سے روسی ایس-400 دفاعی نظام خریدنے، شام میں انسانی حقوق اور قانونی امور کے بارے میں پالیسیوں کے اختلافات کے معاملے پر انقرہ اور واشنگٹن کے مابین تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔