سچ خبریں: آیت اللہ خامنہ ای کے گزشتہ نماز جمعہ کے خطبے اور ایران کے جانب سے صیہونی جارحیت کے خلاف میزائل حملے، عرب دنیا کے معروف اخبارات میں موضوع بحث رہے۔
موجودہ حساس حالات اور صیہونی ریاست کی جانب سے لبنان اور غزہ پر بڑھتے ہوئے حملوں کے دوران آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ نماز جمعہ کے خطبے دیا جس نے ایک بار پھر عربی تجزیہ نگاروں کو فلسطین کی حمایت پر مبنی ایران کے موقف پر غور کرنے پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہالینڈ کی عوام کے فلسطین کی حمایت میں مظاہرے
رأی الیوم: روزنامہ رأی الیوم نے اس بارے میں لکھا:میں ایران کے رہبر کے گزشتہ روز کے خطبے کو بغور سن رہا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کے الفاظ میں سوائے صداقت کے کچھ نہیں پایا۔ ایران کے رہبر کا فلسطین، مسجد اقصیٰ اور مزاحمتی محاذ کے حوالے سے موقف واقعی شرافت پر مبنی ہے۔
میرے خیال میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ایران کا موقف نہایت قابلِ قدر اور شرافتمندانہ رہا ہے، ایرانی مسلمان اپنے فلسطینی مجاہد بھائیوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی جان، مال اور اسلحہ تک قربان کیا، جبکہ دوسرے مسلمان ایسی حمایت فراہم کرنے سے قاصر رہے یہاں تک کہ بعض نے تو غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ میں صیہونی ریاست کی مدد کی۔
القدس العربی: روزنامہ القدس العربی نے لبنان کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: چند روز کے زمینی حملے کے بعد بھی حزب اللہ نے صیہونی ریاست کی فوج کے ٹینکوں کی جنوبی لبنان کے علاقوں العدیسہ، یارون، مارون الرأس، اور کفرکلا کی طرف پیش قدمی کو روک رکھا ہے۔
حزب اللہ نے اس موقع کو اس تاریخی لمحے کے طور پر تسلیم کیا ہے جس کا ذکر حزب اللہ کے مرحوم جنرل سکریٹری سید حسن نصر اللہ دشمن صیہونی ریاست کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے کیا کرتے تھے۔
تاحال، صیہونی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور حزب اللہ تل ابیب، حیفا اور شمالی مقبوضہ علاقوں میں اپنے میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
الاخبار: لبنانی اخبار الاخبار نے اس حوالے سے لکھا: صیہونیوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں زندگی کی قیمت چکائیں اور ہر بار جب انہیں خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے بیگ پیک کر کے اس علاقے سے فرار ہو جاتے ہیں۔
وہ ایک مستحکم حکومت چاہتے ہیں اور کسی مکمل جنگ میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، اگرچہ صیہونی ریاست کے سربراہان سالوں سے یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی جھوٹی داستانیں بیان کرتے آئے ہیں، لیکن نتن یاہو اور دیگر رہنماؤں نے حال ہی میں یہ حقیقت جان لی ہے کہ اب کوئی ان کے جھوٹ پر یقین نہیں کرتا اور دنیا کی عوام تل ابیب کی جارحیت کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے۔
الثورہ: شامی اخبار الثورہ نے اپنی رپورٹ میں کہا: اگر امریکہ کی ہری جھنڈی اور مغربی ممالک کی کھلم کھلا حمایت نہ ہوتی تو صیہونی ریاست کبھی بھی خطے کے ممالک، بشمول فلسطین، لبنان، شام، عراق اور یمن پر جارحیت کی جرأت نہ کرتی۔
سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ صیہونی ریاست کی جانب سے جنوبی بیروت کے ضاحیہ علاقے پر بمباری، جس میں کئی ٹن دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، اس وقت کی گئی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔
امریکہ نے خطے میں دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا تاکہ وہ صیہونی ریاست کے لیے قتل و غارت اور خوف و دہشت پھیلانے میں معاون کا کردار ادا کریں۔
المراقب العراقی: عراقی اخبار المراقب العراقی نے اپنی رپورٹ میں لکھا: حال ہی میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی جانب سے صیہونی ریاست کے خلاف منفرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد۔
ان کارروائیوں نے تل ابیب اور مغربی ممالک کے اس وہم کو ختم کر دیا کہ مزاحمتی قوتوں کی فوجی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس دوران عراقی فورسز نے بھی مزاحمتی محور کے ساتھ اپنی شراکت داری کو جاری رکھا ہے، جو کہ صیہونی ریاست اور امریکہ کے اڈوں کے خلاف کارروائیوں میں شامل ہیں۔
ان کارروائیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی تھا کہ واشنگٹن کو بغداد کی جانب سے عراق سے انخلا کی درخواست کے سامنے جھکنا پڑا۔
المسیرہ: یمنی اخبار المسیرہ نے لکھا: صیہونی دشمن بخوبی جانتا ہے کہ ایران نے خطے کے ممالک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی رکاوٹوں کو کامیابی کے ساتھ ختم کر دیا ہے اور دشمن کی جانب سے مسلمانوں اور شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔
امریکہ اور صیہونی ریاست نے ایران کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ایک مشکل صورتحال میں ڈالنے کی کوشش کی تاہم ایران نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور جلدبازی سے کام نہیں لیا بلکہ ایک اسٹریٹجک منصوبہ تیار کیا۔
مزید پڑھیں: امیر قطر نے اقوام متحدہ میں کیسے فلسطین کی حمایت کی؟
اس وقت جب کہ نتن یاہو اور امریکہ سید حسن نصر اللہ کے قتل پر جشن منا رہے تھے، ایران نے کارروائی کرتے ہوئے میزائلوں کی بارش سے ان کی خوشی کو خاک میں ملا دیا اور مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے لیے ایک بدترین رات کا آغاز کیا۔