بیجنگ (سچ خبریں) چین کے ایغور مسلمانوں پر تاریخ کے بدترین مظالم ہورہے ہیں لیکن عالمی برادری ان مظالم پر بالکل خاموش رہی ہے جس کی وجہ سے ان پر مظالم کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور اب ان ایغور مسلمانوں کے خلاف نئے مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق سنکیانگ میں مصنوعی ذہانت اور چہرے کی شناخت کا نظام استعمال کرنے والے کیمروں کو ایغور باشندوں پر استعمال کر کے ان کے جذبات جانچنے کے لیے تجربات کیے جارہے ہیں، سنکیانگ کے تھانوں میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس نظام نصب کیا گیا ہے۔
بی بی سی کی اس خبر پر لندن میں چینی سفارت خانے نے براہ راست کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن بیجنگ کئی بار اپنا موقف پیش کرچکا ہے کہ چین میں تمام نسلی گروہوں کو سیاسی اور معاشرتی حقوق کی ضمانت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ سنکیانگ میں ایک کروڑ 20 لاکھ ایغور نسل کے مسلمان آباد ہیں اور چینی حکومت کے ایما پر کی روزانہ نگرانی کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ، برطانیہ اور امریکا کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت نے وہاں ذہنی تربیت اور شہریوں کو قومی دھارے میں لانے کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم شروع کررکھے ہیں، حکومت نے سنکیانگ میں حراستی مراکز قائم کررکھے ہیں، جہاں 10لاکھ سے زیادہ افراد کو قید کیا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ایک سافٹ ویئر انجینئر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان ایغور افراد کی تصاویر دکھائیں، جن پر پر جذباتی شناخت کے نظام کا تجربہ کیا گیا ہے، اس نے بتایا کہ چینی حکومت مختلف تجربوں کے لیے ایغوروں کو آزمایشی نمونوں کے طور پر استعمال کرتی ہے، جیسے تجربہ گاہ میں میں چوہوں کا استعمال ہوتا ہے، ان کیمروں کو ملزم سے 3 میٹر کے فاصلے پر نصب کیا جاتا ہے اور مکمل طور پر کرسی سے جکڑ دیا جاتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا یہ نظام چہرے کے تاثرات اور پورے جسم میں ہر منٹ ہونے والی تبدیلیوں کا پتا لگاکر آگاہ کرتا ہے، یہ سافٹ ویئر ایک چارٹ تیار کرتا ہے، جس میں سرخ حصہ منفی یا پریشان کن ذہنی حالت کی نشان دہی کرتا ہے، بعض لوگ دباؤ یا گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جسے جرم کا اشارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
یہ ثبوت ہیومن رائٹس واچ کے چینی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن کو دکھائے گئے، جنہوں نے اسے انتہائی تشویش ناک قرار دیا۔
ادھر کولوراڈو یونیورسٹی کے ڈیرن بائلر کا کہنا ہے کہ ایغوروں مقامی عہدے داروں کو اپنے ڈی این اے کے نمونے فراہم کرنے پڑتے ہیں تاکہ ان کا ڈیجیٹل سکین کیا جا سکے، اسی کو استعمال کرکے مصنوعی ذہانت کو ان پر آزمایا جارہا ہے۔