سچ خبریں: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حالیہ امریکی اور برطانوی فضائی حملے اس گروہ کو روکنے میں زیادہ کام نہیں کریں گے،امریکی اور برطانوی بہت محتاط تھے کہ یہ حملے العدید یا متحدہ عرب امارات کے اڈوں سے نہ کریں کیونکہ نہ تو قطر، نہ متحدہ عرب امارات اور نہ ہی سعودی عرب اس تنازع کا حصہ بننا چاہتے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمعرات کی رات یمن پر برطانوی اور امریکی حملے غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل کر سکتے ہیں اور انصاراللہ کو مستقبل میں بحیرہ احمر کی طرف جانے والے بحری جہازوں کے خلاف اس گروہ کے حملوں سے روکنے میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن پر امریکی حملوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟ امریکی تھنک ٹینک کی زبانی
یاد رہے کہ امریکی اور برطانوی افواج نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے کے بعد حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے، امریکی اور برطانوی حملوں نے یمن کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا ہے جن میں اس ملک کا دارالحکومت صنعا، مغربی بندرگاہی شہر حدیدہ، صعدہ اور ذمار شامل ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انصار اللہ کو کمزور کرنے یا اس گروپ کے حملوں کو روکنے میں ان فضائی حملوں کا بہت کم اثر پڑے گا،انصار اللہ نے جن حملوں کا اعلان کیا وہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے ردعمل میں تھے۔
کنگز کالج لندن کے شعبہ دفاعی مطالعات کے قلمکار اور ایسوسی ایٹ پروفیسر اینڈریاس کریگ کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر میں انصاراللہ کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے حال ہی میں جو بین الاقوامی اتحاد بنایا گیا ہے اسے ایک انتہائی مشکل راستے کا سامنا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ اور امریکہ ایک مضبوط پیغام دینا چاہتے ہیں لیکن اتنا مضبوط نہیں کہ یہ غزہ کی جنگ سے آگے بڑھ کر تنازعہ کو مزید بڑھانے کا باعث بنے اس لیے کہ یہ مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا کیونکہ انصاراللہ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کا اس سے زیادہ سخت کوئی راستہ نہیں ہے، اس کے علاوہ انصاراللہ کو روکنے کی سمت میں کام کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ گروپ ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتا ہے
اگر آپ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی گزشتہ 9 سال سے جاری جنگ کو دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ انصار اللہ کو روکنے کا کوئی امکان نہیں اور اس مقصد کے لیے کی جانے والی کارروائیاں ہمیشہ ناکامی سے دوچار رہی ہیں نیز حالیہ حملہ بھی بے عملی کی وجہ سے ہونے والی شرمندگی سے بچنے، انصاراللہ کے لگاتار حملوں کے درمیان نیویگیشن کی آزادی کے دفاع کے لیے مغرب کے عزم کی تصویر کے تحفظ کی ایک کوشش تھی۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک غیر مقیم محقق ابراہیم جلال کا بھی خیال ہے کہ یہ حملے انصاراللہ کو روکنے میں زیادہ مدد نہیں کرتے،ان کا خیال ہے کہ انصاراللہ نے 2004 سے گوریلا جنگ میں دو دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ حاصل کیا ہے اور وہ 2015 سے ایک علاقائی جنگ میں رہی ہے،ان کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ انصار اللہ کو شکست دینا مزید مشکل بنا دیتا ہے،وہ مزید کہتے ہیں کہ ان حملوں کے بہت سے نتائج ہو سکتے ہیں، جن میں عام شہریوں میں خوف پیدا کرنا، انصار اللہ کو بیرونی دشمن کا مسئلہ اٹھانے کے لیے جگہ فراہم کرنا اور یمن کے اندر اپنے مخالفین کے ساتھ محاذ آرائی کو گہرا کرنا نیز ان کی داخلی حمایت کو مضبوط کرنا ہے۔
جلال کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ، یمن کے ایک گہرے انسانی بحران میں پڑنے کے بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ، انصار اللہ کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے اور بحری حملے جاری رکھنے کے لیے حالات مزید سازگار ہو جاتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں انصار اللہ کے حملے خلیج فارس سمیت خطے میں امریکی مفادات کے خلاف پھیل سکتے ہیں۔
تنازعات کا دائرہ وسیع کرنا؟
کریگ کو یقین نہیں ہے کہ حالیہ تنازعہ بحیرہ احمر اور بحر ہند سے آگے علاقائی طور پر پھیل جائے گا،وہ کہتے ہیں کہ امریکی اور برطانوی بہت محتاط تھے کہ یہ حملے العدیدہ یا امارات کے اڈوں سے نہ کریں کیونکہ نہ تو قطر، نہ امارات اور نہ ہی سعودی عرب اس تنازع کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
کریگ کا کہنا ہے کہ انصاراللہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے صف اول میں ہیں،اس لیے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی کیونکہ اس کے بعد وہ اپنی قانونی حیثیت کھو دے گی،انھوں نے خبردار کیا کہ برطانیہ اور امریکہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آپریشن کا دائرہ غزہ جنگ سے آگے نہ بڑھے اور اس لیے اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے،انہوں نے کہا کہ عمان اور سعودی عرب کے ذریعے سفارتی رابطے انصار اللہ کے ساتھ مذاکرات کی کلید ہوں گے۔
ممکنہ منظرنامے
اوٹاوا یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر تھامس جوناؤ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جمعرات کی رات کے حملوں سے وسیع تر تصادم کا امکان نہیں ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ انصار اللہ کی طرف سے جوابی کاروائی کا شدید خطرہ ہے۔
مزید پڑھیں: یمن پر امریکی حملوں کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملہ کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر امریکی قیادت والی ٹاسک فورس کے جہازوں پر حملہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، وہ خلیج فارس سمیت خطے میں امریکی فوجی اڈوں پر بھی حملہ کر سکتے ہیں، اسرائیل کو دوبارہ میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ محدود فضائی حملوں سے امریکی علاقائی پالیسیوں کے خلاف انصار اللہ کو تقویت ملے گی۔