سچ خبریں:صیہونی مقبوضہ علاقوں میں اشتعال بڑھنے اور وزیر جنگ کی برطرفی کے بعد اس حکومت کے اعلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب ہمیں اب فوج اور داخلی سلامتی میں اس فیصلے سے آنے والے زلزلہ کا انتظار کرنا چاہیے۔
صیہونی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بنیامین نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے بعد صیہونی کابینہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کو تسلیم کرتے ہوئے، اب لیکوڈ پارٹی کے اراکین میں تقسیم ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
اسی سلسلے میں صیہونی وزیر اعظم کے دفتر نے وزیر جنگ یواف گیلنٹ کو برطرف کرنے کا اعلان کیا ہے اس لییے کہ انہوں نے ہفتے کے روز نیتن یاہو کی متنازعہ پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کابینہ سے عدالتی اصلاحات کے پروگرام کو روکنے کی درخواست کی اور متنبہ کیا کہ جب تک یہ طریقہ کار جاری رہے گا، فوج اور دفاعی اداروں میں تقسیم جارہی رہے گی جس کے نتیجہ میں ہمارے سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سڑک پر آنے والوں یا کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے اندر موجود افراد میں جس کی بھی جیت ہوگی اس کا نتیجہ صیہونی حکومت کے خاتمہ ہی ہوگا۔
اس سے قبل امریکی ویب سائٹ Axios نے صیہونی حکام کے حوالے سے نیتن یاہو اور گیلنٹ کے درمیان اختلافات میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیتن یاہو نے متعدد بار وزیر جنگ پر اپنی اصلاحات کے حل میں رکاوٹ ڈالنے اور ان کے میڈیا موقف میں ہم آہنگی کے فقدان کا الزام لگایا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اب گیلنٹ پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ یہ حکمران اتحاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب صیہونی حکومت کی جعلی کابینہ سے گیلنٹ کی برطرفی کے بعد نیتن یاہو کے خلاف میڈیا نے وسیع ردعمل کا اظہار کیا، اس سلسلے میں حزب اختلاف کی جماعت کے رہنما یائر لاپڈ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ اس کاروائی سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، کہا کہ نیتن یاہو صیہونی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو کے خلاف اس طرح کے موقف کو لیبر پارٹی کے رہنما میراف میخائلی بھی اپنا چکے ہیں نیز اس حکومت کے سابق وزیر خزانہ اوگیڈور لیبرمین نے گیلنٹ کو برطرف کرنے کے نیتن یاہو کے فیصلے پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو نے اپوزیشن کے منہ بند کرنے کا آمرانہ طریقہ اختیار کیا ہے۔