سچ خبریں: یہ 2009 کے آخر میں تھا جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، مصر، اردن، تیونس جیسے کئی عرب ممالک نے امریکہ، انگلینڈ، فرانس اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ مل کر شام میں خواتین کی جنگ شروع کی۔
حقیقت یہ ہے کہ شام کی حکومت اور عوام بین الاقوامی اتحاد کی جنگ جیت چکے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران میدان اور سیاسی اور عسکری میدانوں میں تزویراتی کامیابیوں نے علاقائی مساوات اور عرب ممالک کے درمیان شام کی سیاسی حیثیت کو بلند کیا ہے اور اس نے اسے پچھلی صدی کے سب سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک بحرانوں سے بھی باہر نکالا ہے۔
درحقیقت یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے عرب ممالک نے کئی سالوں سے اپنے مخالفانہ موقف کو ترک کر کے دمشق کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ شام کی عرب لیگ میں واپسی اور بعض حکومتوں کو لینے کے لیے اب بھی ایک عجیب و غریب استقامت موجود ہے۔ عرب ممالک کی جانب سے شام کی طرف قدم جو کہ بعض عرب ممالک بالخصوص خلیج فارس کے بعض ممالک کے خلاف امریکی دباؤ کو دیکھتے ہوئے فطری لگتا ہے۔
بہرصورت عرب ممالک کا دمشق کی طرف رخ کرنا شام میں قائم فوجی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے منصوبوں کی ناکامی کی علامت ہے۔ بعض عرب ممالک کی جانب سے شام کی عرب لیگ میں واپسی اور دمشق کے ساتھ تعلقات کے قیام کے خلاف سخت استقامت کے باوجود یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہے گا اور یہ عرب ممالک دمشق کے راستے پر چلیں گے۔
یہ عمل ترکی اور شام کے تعلقات پر بھی لاگو ہوتا ہے تاکہ آنکارا جس نے شامی بحران کے آغاز میں شامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہا جب ترکی اپنے اتحادیوں کی مدد سے حالات پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور شام کے بحران سے پاک ہو گیا۔ دہشت گردوں سے اس ملک کی اکثریت نے محسوس کیا کہ اسے دوسرا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔