سچ خبریں: ویتنام کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ حکمران جماعت نے اس ملک کے صدر کے استعفیٰ پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جنہں اس عہدے پر صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔
رشیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق ویتنام کی حکومت نے بدھ کو اعلان کیا کہ حکمراں جماعت کی مرکزی کمیٹی نے ایک بیان شائع کرتے ہوئے کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے صدر وو وان تنگ کے استعفیٰ پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا اسرائیل ویتنام میں امریکہ کی طرح غزہ کی دلدل میں پھنس چکا ہے؟ صیہونی تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
بیان میں کہا گیا ہے کہ تنگ نے پارٹی قوانین کی خلاف ورزی کیاور مزید زور دیا کہ ان کوتاہیوں نے رائے عامہ، پارٹی، حکومت اور ذاتی طور پر ان کی ساکھ کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔
پارٹی کی مرکزی کمیٹی، جو کہ ویتنام کی حکمران کمیونسٹ پارٹی میں فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، نے انتخاب کے صرف ایک سال بعد تنگ کا استعفیٰ منظور کر لیا۔
ویتنام میں صدر کا زیادہ تر رسمی کردار ہوتا ہے، لیکن وہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں اعلیٰ چار سیاسی عہدوں میں سے ایک ہے۔
تنگ کا استعفیٰ ایک دہائی قبل بدعنوانی میں ملوث ایک اہلکار کی گرفتاری کے چند دن بعد آیا ہے، جب وان وان تنگ صوبہ کوانگ نگائی میں پارٹی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
مزید پڑھیں: بھارتی اور برطانوی کرونا کے ویتنام تک پہنچنے کا انکشاف
یاد رہے کہ حال ہی میں ویتنام کے سابق صدر "Nuen San Phu” نے استعفیٰ دے دیا، بتایا گیا کہ سنفو اپنے کئی ملازمین اور کابینہ کے وزراء کی بدتمیزی کی وجہ سے کافی عرصے سے شدید تنقید کی زد میں تھے۔
68 سالہ فو، سابق وزیر اعظم، 2 سال تک ویتنام کے صدر رہے، فو 2016 اور 2021 کے درمیان ویتنام کے وزیر اعظم رہے اور پھر اپریل 2021 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے۔