سچ خبریں:مسجد اقصی اور یروشلم کے علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مظاہرے کرنے کے لئے غزہ کی تمام مساجد سے اسرائیل کے خلاف ریلیاں نکالنے کا مطالبہ جاری تھا کہ گذشتہ ماہ میں مقبوضہ علاقوں پر راکٹوں کی برسات ہوئی۔
نئی صیہونی حکومت کا واحد کارنامہ نیتن یاہو کا تختہ پلٹنا ہے اور شاید یہ واحد فیصلہ ہے جس پر نئی حکومت کے تمام ممبران متفق ہیں۔
اسرائیل کی نئی حکومت متضاد حکومت ہے جس کے پاس اسرائیل میں جاری بحرانوں کے حل کے لئے کوئی منصوبہ بندی اور واضح ویژن نہیں ہے، خاص طور پر ان دو سالوں کے دوران جس میں چار بار انتخابات ہوئے اور اس کی وجہ سے اسرائیلی اداروں میں عمومی کمزوری پھیل گئی،واضح رہے کہ نیتن یاہو کی چھوڑی ہوئی میراث کسی بھی فوجی عہدیدار پر بوجھ ہوگی نیتن یاہو نے نئی حکومت کے لیے معاشی دیوالیہ چھوڑا ہے ،اس کے علاوہ انھوں نے دنیا کا سب سے طاقتور اسلحہ رکھنے والی اسرائیلی فوج کی ناکارہ اور نامناسب تصویر چھوڑی ہے جو سیف القدس کی لڑائی میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کے راکٹوں کو روکنے میں ناکام رہی اور وہ آئرن گنبد چھوڑا ہے جس پر صیہونی حکومت کو بڑافخر تھا وہ بھی مزاحمتی راکٹ حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکا۔
قابل ذکرہے کہ نیتن یاہو صرف ایک مسئلہ میں کسی حد تک کامیاب ہوئے تھے ،وہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا تھا جو اس وقت فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور ایک حل پر ان کے اتفاق رائے کے نتیجے میں اس پر بھی لرزہ طاری ہوگیا ہے کیونکہ فلسطینیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں کچھ عربوں کی طرف سے ان کی حمایت نہ کرنے کا مطلب ان کی شکست نہیں ہے ،فلسطینیوں کا فیصلہ آزادانہ ہوگا اور وہ مجرموں کی اشتعال انگیز کاروائیوں سے متاثر نہیں ہوں گے، ایسی صورتحال میں نئی اسرائیلی حکومت ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی جن کے دل ابھی بھی یروشلم کے لئے دھڑک رہے ہیں اور جن کی جغرافیائی تقسیم ان کو منتشر نہیں کر سکی ہے؟ سیف القدس کی لڑائی نے ثابت کردیا کہ فلسطین ناقابل تقسیم ہے۔ نیتن یاہو کا دور تمام جرائم اور آباد کاریوں اور یہودیوائزیشن کے ساتھ ختم ہوا ،اگرچہ نفتالی بینیٹ کی حکومت اس سے مختلف نہیں ہے اور نئی اسرائیلی حکومت نے اسرائیلی کنسیٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے پہلے ہی لمحوں سے اس کے قائد نے اعلان کیا کہ آبادکاری کا منصوبہ جاری ہے اور جاری رہے گا نہیں جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ حکومت بھی ایک نسل پرست حکومت اورصیہونی بستیوں کی تعمیر نیز یہودیت کی حامی بھی ہوگی جبکہ اس کے بیشتر ارکان شدت پسند صہیونی جماعتوں کے ممبر ہیں تو یہ حکومت اس طرح کی کیسے نہیں ہوسکتی ہے ؟! بینیٹ حکومت کے کھاتے میں غزہ ایک گرما گرم موضوع بنے گا جس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس فلسطینیوں کو ان کی انسانی ضروریات کو غلط استعمال کرکےان پر مزید دباؤ ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
یہ حکومت محاصرے کو سخت کرنے اورغزہ تعمیر نو کو روکنےنیز انسانی امداد کی روک تھام جاری رکھے گی ،یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ایک زیادہ مفید طریقہ ہے لیکن یہ سلوک سیاسی حماقت ہے جس کے نیتن یاہو کے دور حکومت میں فلسطینی عادی ہوچکے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ نیتن یاہو نے اسے میراث میں چھوڑا ہےتاکہ ان کے بعد جو اقتدار میں آئے وہ اسے استعمال کرے، محاصرے کے 14 سال کے دوران غزہ کی پٹی نے مزاحمت کی اور کبھی بھی ہتھیار ڈالنے کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ اپنی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور کم سے کم سہولیات سے اپنے ہتھیاروں کو تعمیر کیا جس کے نتیجے میں اشتعال انگیز اسرائیلی اقدامات انجام پائے۔
لہذا نئی حکومت کے پرانے ہتھکنڈے غزہ کے عوام پر اثرنہیں کریں گے اگرچہ صیہونی کچھ معاملات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ، خاص طور پر غزہ کے مزاحمتی اور تعمیر نو کے گروپوں نیز صہیونی قیدیوں کا معاملہ تاہم یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ غزہ ان مسائل کے سامنے جھکنے والا نہیں اور نئی اسرائیلی حکومت اپنی ساختی کمزوری اور اس کے منصوبوں کے تضاد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوگی اور جس طرح نیتن یاہو ناکام ہوئے ، نئی حکومت بھی ناکام ہوجائے گی ، اس حکومت کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے کیونکہ غزہ ایک استثناء ہے جس میں نیتن یاہو کے دوران حکمرانی کا 12 سالہ تجربہ بھی ناکام ہوگیا لہذا نئی اسرائیلی حکومت کو دوسرے طریقوں کی تلاش کرنی ہوگی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نام نہادفلیگ مارچ کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو اپنی طاقت کے آخری مرحلے کے اکسانا ہے لیکن انھیں یاد رہنا چاہیے اس مزاحمت کا صیہونیوں کے فیصلوں پر محض رد عمل نہیں رہا ہے بلکہ درست اور حساب کتاب کی بنیاد پر کام کیا گیا ہے، لہذا وہ نئی اسرائیلی حکومت کو غزہ پر حملہ کرنے کا موقع نہیں دیں گے کیونکہ مزاحمت جانتی ہے کہ یہ حکومت سیف القدس کی جنگ کو دہرانے کا فیصلہ کرنے میں بہت کمزور ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔