سچ خبریں:جارج ڈبلیو بش جنہوں نے اپنے دور صدارت میں افغانستان کے خلاف امریکی قیادت میں جنگ شروع کی تھی ، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ملک میں ہونے والے واقعات کو نہایت غم کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کے 43 ویں صدر جن کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکن سمجھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں 2001 اور 2003 میں امریکی قبضے کی جنگوں کی وجہ سے ان پر جنگی مجرم کے طور پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے ، نے افغانستان کی حالیہ صورتحال کے سلسلہ میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان مصیبت میں ہے، میں اس ملک کے عوام کی مدد کے لیے تیار ہوں۔
جارج ڈبلیو بش جونیئر نے اپنی اہلیہ لورا بش کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں لکھا کہ میں اور لورا نے گہرے دکھ کے ساتھ افسوسناک واقعات دیکھے ہیں،ہمارے دلوں کو افغانستان کے لوگوں کی حالت دیکھ کر ٹھیس پہنچتی ہے جنہوں نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور امریکیوں اور نیٹو کے اتحادیوں کے لیےبہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
20 جنوری 2001 سے 20 جنوری 2009 تک ، امریکہ کے صدر رہنے والے بش نے مزید کہا کہ اس وقت افغانستان کے وہ لوگ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں وہ ہیں جو اپنے ملک کی میں ترقی میں سب سے آگے رہے ہیں،تاہم بائیڈن نے امریکی شہریوں اور ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ان افغانیوں کو نکالنے کا بھی وعدہ کیا ہے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے پاس فوری انسانی بحرانوں میں پناہ گزینوں کے دکھوں کو دور کرنے کا قانونی اختیار ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ بلا تاخیر ان کے لیے محفوظ راستے کو یقینی بنائیں۔
ہمارے مضبوط اتحادی این جی اوز کے ساتھ مل کر مدد کے لیے تیار ہیں،مجھے اور لورا کو یقین ہے کہ انخلاء کی کوششیں (امریکی اور افغانی جو ملک چھوڑنے کے خواہاں ہیں) کارگر ثابت ہوں گی کیونکہ یہ کوششیں امریکہ کی فوج ، سفارتی قوتوں اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے ممتاز مرد و خواتین کی طرف سے کی جا رہی ہیں،تاہم ہم ان سابق فوجیوں کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں خدمات انجام دی ہیں۔