🗓️
سچ خبریں: پاکستان کی سینیٹ کے دفاعی کمیشن کے چیئرمین نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین کے بارے میں تہران اور اسلام آباد کا مشترکہ موقف ہے ، کہا کہ سلیمانی شہید القدس ہیں۔
غزہ کی جنگ نے ظاہر کیا ہے کہ بعض اسلامی ممالک محض زبان سے فلسطینیوں کے نظریات کی حمایت کے راگ الاپتے ہیں اور صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر اپنے تعلقات کو جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے وسیع پیمانے پر ہونے والے حملوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر عرب اور اسلامی حکومتیں متاثر نہیں ہوئی ہیں۔
اس وقت جبکہ یورپی اور اسلامی حکومتوں کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں اور مذاکرات اور جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے فلسطین پر مرکوز بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی صورت میں ایرانی حکومت کی کوششیں دیکھنے کو مل رہی ہیں ،حال ہی میں تہران نے فلسطین کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی ہے جس میں 50 ممالک کے سیاست دانوں اور مفکرین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی سینیٹ کے دفاعی کمیشن کے چیئرمین اور نواز شریف کی جماعت کے سینئر رکن سنیٹر مشاہد حسین سید کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
پاکستان اور ایران کو اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
الحمدللہ پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ مفادات اور مشترکہ اہداف کے حوالے سے کوئی بنیادی مسائل یا اختلافات نہیں ہیں اور ان دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ محبت پائی جاتی ہے، ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا اور پاکستان پہلا ملک تھا جس نے امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کو تسلیم کیا، اس لیے ان دونوں ممالک کے درمیان گہرا تعلق ہے لیکن میری رائے میں دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں تین کام کرنے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان فلسطینیوں کی سفارتی و اخلاقی مدد جاری رکھے گا:انوار الحق کاکڑ
1۔ پہلا کام یہ ہے کہ سرحدی منڈی جو ایران کے صدر جناب ڈاکٹر رئیسی اور اس وقت کے صدر پاکستان جناب شہباز شریف کی موجودگی میں کھولی گئی تھی، کو ترقی دی جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو آسان بنایا جا سکے، یہ بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تومان اور روپے میں تجارت ہو اور ہم سب کا فرض ہے کہ کاروبار کو وسعت دینے کے لیے کام کریں۔
2۔ دوسرا کام یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کی سرحدوں میں بعض عدم تحفظ کی وجہ سے بعض اوقات دونوں فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس لیے دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
3۔ اور تیسرا کام یہ ہے کہ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن کا معاہدہ 10 سال قبل آصف علی زرداری کے دور صدارت میں ہوا تھا اور ایران نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے گیس پائپ لائن کو اس کی منزل تک پہنچا دیا ہے،اب پاکستان قانون کے مطابق یہ معاہدہ مکمل کرنے کے لیے پابند ہے،اس لیے ضروری ہے کہ پاکستانی عوام کی خوشحالی لانے والا یہ معاہدہ مکمل ہو،ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ منصوبہ ہمارے فائدے اور ہمارے علاقے نیز ہماری ضروریات کے لیے ہے اور یہ ہمارے ملک کے لوگوں کی بھلائی کا باعث بنے گا، اس لیے پاکستان کے لیے اس منصوبے کو مکمل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کو کم از کم اس منصوبے کو گوادر پورٹ تک لانا چاہیے، اس کارروائی کا اثر بھی ہو گا کیونکہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے ملک کی ترقی اور پیشرفت کے لیے اپنی سرزمین پر کوئی بھی کوشش کریں اور میرے خیال میں یہ تینوں مسائل آگے بڑھیں گے تو ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی ترقی اور مضبوطی ہوگی۔
آپ جس کانفرنس میں شرکت کے لیے ایران آئے تھے اس کے مقاصد کیا تھے؟ کیا یہ کانفرنس غزہ میں صیہونی جارحیت کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
یہ ایک انتہائی اہم کانفرنس تھی جس میں تقریباً 70 ممالک نے شرکت کی اور مجھے پاکستانی وفد اور پاکستانی حکومت نیز پارلیمنٹ کے نمائندوں کی قیادت کرنے کا موقع ملا ، مجھے اس کانفرنس میں تقریر کرنے اور ایرانی صدر سے ملاقات کا بھی موقع ملا،ایرانی وزیر خارجہ نے بنیادی طور پر پاکستان اور ایران کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے گہرا تعلق ہے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح قیام پاکستان کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت، اس کی توسیع پسندی اور فلسطین پر قبضے کے سخت مخالف تھے اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی کا نظریہ بھی صیہونی حکومت کے بارے میں یہی نظریہ تھا لہٰذا ایران اور پاکستان کے درمیان اچھی ہم آہنگی اور ایک مشترکہ نقطہ نظر ہے اور ہم بحیثیت حکومت یا ایک قوم کا فرض ہے کہ فلسطین کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
میری رائے میں اس کانفرنس کا دنیا کے لیے بنیادی پیغام تھا کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو جاتا، مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا، اس کانفرنس میں صیہونی حکومت کے لیے بھی ایک اہم پیغام تھا کہ پوری دنیا صیہونی حکومت کی دہشت گردی اور نسل کشی کے خلاف متحد ہے اور میرے خیال میں یہ کانفرنس طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد ہونے والی اہم ترین بین الاقوامی کانفرنسوں میں سے ایک تھی۔ اس سلسلے میں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ بالخصوص ڈاکٹر امیر عبداللہیان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے نئے سال کی تقریبات کے باوجود مختصر عرصے میں اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ممتاز شخصیات کو جمع کیا تاکہ فلسطین کی آواز دنیا کے کانوں تک پہنچائی جا سکے۔
میں نے اس کانفرنس میں کچھ نکات کا اظہار بھی کیا:
1۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ دنیا صیہونی حکومت کی بربریت کی مذمت کرے۔
2۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ صیہونی حکومت نے غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے لہذا اس پر بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے 3۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ کا ساتھ دینے کے لیے میڈیا ہمیں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے اور فلسطین کے مسئلے سے جڑے تمام اداروں کو غزہ میں نسل کشی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہم پر فرض ہے کہ ہم فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے کام کریں جس کا دارالحکومت قدس شریف ہو۔
آپ کے خیال میں طوفان الاقصیٰ طوفان آپریشن کیوں ہوا؟
طوفان الاقصیٰ آپریشن صیہونی حکومت کے جبر، جرائم اور قبضے کو دبانے کا ایک فطری ردعمل تھا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ اچانک اور اتفاق سے نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے صیہونی حکومت کے ظلم، جرم اور قبضے کا غصہ تھا۔
صیہونی حکومت نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے ایک چھوٹے سے علاقے میں 22 لاکھ افراد قید ہیں۔
صیہونی فوج ہمیشہ غزہ کے عام لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جبکہ اس نے ان چند مہینوں میں فوجی میدان میں کچھ حاصل نہیں کیا، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
میں نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں ایک کالم پڑھا جس میں لکھا تھا کہ صیہونی حکومت جان بوجھ کر سب سے بڑے اور خطرناک بم شہری علاقوں میں گراتی ہے جہاں بچوں، خواتین اور مردوں نے پناہ لی ہے جو ایک جنگی جرم ہے، ان تمام جرائم کے باوجود فلسطینی عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور ہر روز قابض حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے گزشتہ روز سے بہتر تیاری کر رہے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام نے اپنے خون کے آخری قطرے تک آزادی اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے،میں فلسطینی مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں جو پوری سنجیدگی اور لگن کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
میں امریکہ اور صیہونی حکومت کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تل ابیب اس وقت تک محفوظ نہیں رہے گا جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
صیہونی حکومت کے بحری جہازوں پر یمنی حملوں کے غزہ جنگ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
اگرچہ یمن برسوں تک امریکہ اور مغرب کی مسلط کردہ جنگ سے نبرد آزما رہا لیکن آج اس نے بڑی طاقتوں کو للکارا ہے، یہ طاقتیں یمن کے خلاف اس طرح صف آراء ہو گئی ہیں جیسے وہ کسی عالمی طاقت سے لڑنا چاہتی ہوں،غزہ جنگ پر یمن کے اقدامات کے اثرات بالکل واضح ہیں اور یمنی صیہونیوں پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں۔
شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کی برسی قریب ہے، شہید کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
شہید قاسم سلیمانی ایرانی قوم کے ہیرو اور عظیم مجاہد تھے، وہ ہمیشہ مظلوموں کا مددگار رہے،۔ان کا قتل بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا،امریکہ نے عراق میں جنرل قاسم کو لے جانے والی گاڑی پر حملہ کرکے اس ملک کی خودمختاری کو پامال کیا،شہید سلیمانی نے شام، لبنان اور عراق میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
فلسطین کے بارے میں پاکستان اور ایران کا موقف مشترکہ ہے، شہید سلیمانی کی نماز جنازہ میں اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ شہید قاسم القدس کے شہید ہیں،مسئلہ فلسطین میں شہید سلیمانی کے کردار کے بارے میں اپنی رائے بتائیں؟
شہید سلیمانی واقعی ایک شہید القدس ہیں،دنیا میں مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کے لیے شہید ہونے سے بڑھ کر ایک شخص کے لیے کیا اعزاز ہو گا، قدس ہمارا قبلہ اول ہے اور اس کی آزادی کے لیے لڑنا ہمارے لیے باعث فخر ہے اور ہر مسلمان کا خواب ہے کہ وہ ایک دن قدس شریف میں نماز ادا کرے۔
اسلامی انقلاب کی سالگرہ قریب ہے اور آپ نے یہ بھی بتایا کہ آپ مسلط کردہ جنگ کے دوران ایران آئے تھے، اگر آپ کے پاس اس حوالے سے کوئی بات ہو تو بتائیں
جی ہاں، اسلامی انقلاب کی سالگرہ قریب ہے اور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکام کو اس دن کی پیشگی مبارکباد پیش کرتا ہوں،یہ انقلاب امام خمینی کی قیادت میں رونما ہوا اور اس نے جدید عالمی تاریخ کا دھارا بدل دیا اور دنیا کو بہت زیادہ متاثر کیا۔
مزید پڑھیں: لاہور میں ہزاروں پاکستانی فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے امام خمینی کی مسلط کردہ جنگ کے دوران بطور رپورٹر خدمات انجام دیں، جب ایران مسلط کردہ جنگ میں تھا، میں یہاں تک کہ آبادان اور خرمشہر جا کر خبروں کی کوریج کرتا تھا اور تمام جنگی جرائم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، میں نے ان دو شہروں کی آزادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے بعد میں نے امام خمینی سے پوچھا کہ آپ کا ملک اتنے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے، مغربی ممالک آپ سے منہ موڑ چکے ہیں، کچھ اسلامی ممالک آپ کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں اور آپ سخت دباؤ میں ہیں، اس کے باوجود آپ سمجھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ہے؟
امام خمینی نے بہت خوبصورت جملہ کہا اور فرمایا کہ ایرانی عوام کے فیصلے اب لندن اور واشنگٹن میں نہیں ہوتے بلکہ اس ملک کی عوام کے فیصلے ملک کے اندر کے لوگ لیتے ہیں، ایرانی عوام مکمل آزادی کے ساتھ خود فیصلہ کرتے ہیں اور یہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔
مشہور خبریں۔
متعدد افراد کے شناختی کارڈ و پاسپورٹس بلاک کرنے کا حکم؛ وجہ؟
🗓️ 27 جون 2024سچ خبریں: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یوٹیوبر عادل راجہ، شاہین
جون
مکمل لاک ڈاؤن سے بچنے کے لئے ایس او پیز پر عمل لازمی ہے: مرادعلی شاہ
🗓️ 29 اپریل 2021کراچی(سچ خبریں) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کورونا وائرس کی تیسری
اپریل
ایمن الظواہری کی موت کی ڈی این اے تصدیق نہیں ہو گی:امریکہ
🗓️ 3 اگست 2022سچ خبریں:وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے
اگست
تل ابیب کی غزہ جنگ کے بعد کی حکمت عملی
🗓️ 13 دسمبر 2023سچ خبریں:Axios نیوز سائٹ نے بدھ کی صبح اطلاع دی ہے کہ
دسمبر
افغانستان میں انسانی بحران سنگین ہو رہا ہے: وزیر خارجہ
🗓️ 15 دسمبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ
دسمبر
ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ کیا ہوا ہے؛ صیہونی میڈیا
🗓️ 16 ستمبر 2024سچ خبریں: صیہونی میڈیا نے یمنی افواج کے میزائل حملے کے 24
ستمبر
اسرائیل کے ساتھ بات چیت غزہ میں جنگ روکنے سے پہلے نہیں ہوگی: سعودی
🗓️ 20 فروری 2024سچ خبریں:سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے ایک تقریر
فروری
امریکی قانون سازوں کا عمران خان کی رہائی کیلئے بائیڈن کو خط سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے، دفتر خارجہ
🗓️ 24 اکتوبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے امریکا
اکتوبر