سچ خبریں: غزہ میں جنگ بندی کے قیام کی قرارداد بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کر لی گئی لیکن اس تنظیم کے 32 ارکان نے صیہونی حکومت کی اندھا دھند حمایت جاری رکھی اور غزہ میں بچوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کا ثبوت دیا۔
قدس آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹنگ میں امریکہ، انگلینڈ اور صیہونی حکومت سمیت اس تنظیم کے 10 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے 23 رکن ممالک نے بھی اس قرارداد پر ووٹنگ سے پرہیز کر کے واشنگٹن اور تل ابیب تک صیہونی حکومت کی حمایت کا واضح طور پر پیغام پہنچایا۔
آسٹریا، جمہوریہ چیک، گوئٹے مالا، صیہونی حکومت، لائبیریا، مائیکرونیشیا، ناورو، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے، امریکہ نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ارجنٹائن، بلغاریہ، کیپ وردے، کیمرون، استوائی گنی، جارجیا، جرمنی، ہنگری ، اٹلی، لیتھوانیا، ملاوی، مارشل آئی لینڈ، ہالینڈ، پلاؤ، پاناما، رومانیہ، سلوواکیہ، جنوبی سوڈان، ٹوگو، ٹونگا، یوکرین، انگلینڈ اور یوراگوئے نے ووٹ دینے سے پرہیز کیا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کے خلاف ان ممالک کی مخالفت یہ ہے کہ یہ دستاویز قانونی طور پر پابند بھی نہیں ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان ممالک نے – کم از کم ظاہری طور پر – صیہونی حکومت کے جنگی جرائم کی مخالفت کی علامت ظاہر کی ہوتی تو صیہونیوں کے ساتھ ان کی عقیدت میں کمی نہ آجاتی۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک اور ان کے رہنما ایک لمحے کے لیے بھی اپنے آپ کو غزہ کے بے گھر لوگوں کی جگہ نہیں رکھنا چاہتے جو اس خطے کی کل آبادی کا 90 فیصد ہیں۔
ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے، حتیٰ کہ انتہائی سطحی انداز میں بھی، دسیوں ہزار فلسطینی بچوں کے قتل کی مذمت کریں یا کم از کم یہ مطالبہ کریں کہ ان جرائم کو روکا جائے۔
بلاشبہ بین الاقوامی دباؤ بتدریج اقوام متحدہ میں ووٹنگ کی مخالفت کرنے والے ممالک کو صیہونی حکومت کی حمایت ختم کرنے پر مجبور کرے گا جو تل ابیب کی مکمل تنہائی کا باعث بنے گا۔
تاہم غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے ساتھ ان 32 ممالک کی ملی بھگت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے جسے آنے والے سالوں میں اور فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد بھی فراموش نہیں کیا جائے گا جس واقعے کو امریکی صدر نے بھی ایک ناگزیر چیز قرار دیا جس کی مخالفت نیتن یاہو ہمیشہ نہیں کر سکتے۔