اگرچہ طالبان نے حالیہ دنوں میں کچھ اقلیتوں کو عبوری حکومت میں لانے کی کوشش کی ہے لیکن ملک کی نصف آبادی کے طور پر خواتین کی حیثیت ابھی تک واضح نہیں ہے۔
عالمی رہنماؤں کی باتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے اور بین الاقوامی برادری اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ طالبان کے قول و فعل کتنے مطابقت رکھتے ہیں اور گذشتہ20 سال کے دوران اس میں کس طرح تبدیلی آئی ہیں۔
سچ خبریں: طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کل عبوری حکومت میں اصلاحات اور مختلف نسلی گروہوں کی متعدد اقلیتوں کو شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک جامع حکومت تشکیل دی گئی ہے لیکن یہ تبدیلیاں لوگوں، اقلیتوں اور ممالک کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
افغانستان کے اقتصادی و سیاسی مسائل کے پروفیسر سید مسعود نے کہا کہ طالبان اب ایک گروہ ہیں اور سے حکومت نہیں کہا جا سکتا اور مقننہ ، عدلیہ اور مجریہ کو لوگوں کی مرضی پوری کرنے کے لیے تشکیل دیا جانا چاہیے۔
افغانستان کے منجمد اثاثوں کی رہائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ گروہ اب بھی ان لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا جنہیں اثاثے حوالے کیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک حکمران گروپ کے طور پر ہے۔
اگر طالبان عوام کے لیے قابل قبول حکومت بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تمام نسلوں ، گروہوں اور اقلیتوں کو اطمئنان دلانا ہوگا حکومت کے تینون ستون کو مکمل کرنا ہوگا اور پڑوسیوں اور عالمی برادری کے مطالبات کو پورا کرنا پڑے گا
The Taliban are now the minority government that is trying to overthrow the government, but the property of half of the villages, whose status is not clear, is not clear.