سچ خبریں:صہیونی اخبار ہارتیز نے 24 مارچ 2019 کو النقب صحرا میں واقع جیل میں حماس کے قیدیوں کے خلاف اسرائیلی جیل گارڈز کے وحشیانہ تشدد کو بے نقاب کیا۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار القدس العربی نے صیہونی اخبار ہارٹیز کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اس صیہونی اخبار نے اپنی ویب سائٹ پرصیہونی جیلوں میں فلسطینیوں پر ہونے والے تشدد کی خبر شائع کرتے ہوئے جیل کے کیمرے کے ذریعہ ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو بھی بھی نشر کی ہےجس میں 55 فلسطینی قیدیوں پر تشدد دکھایا گیا ہے،ویڈو میں دکھایا گیا ہے کہ تشدد کے مقام پر درجنوں محافظوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے نظربند افراد نے اس صورتحال میں کئی گھنٹے گزارے۔
اس ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ زمین پر پڑے ہیں اس کے باوجود جیل کے محافظ ان پر تشدد کرتے ہوئے انھیں لاتیں اورڈنڈے ماررہے ہیں نیز انھیں کوئی بھی حرکت یا بات کرنے سے روک رہے ہیں،واضح رہے کہ یہ جارحیت اسرائیلی جیلوں میں ہونے والے سب سے پُرتشدد واقعات میں سے ایک ہے ۔
ہارٹیز نے ایک اسرائیلی جیل اہلکار کے حوالے سے بتایاکہ اس ویڈیو میں کم سے کم 10 جیل گارڈز کے ہاتھوں قیدیوں کو مار پیٹ کرتے ہوئے دکھایا ہے، رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کی جیلوں میں قیدیوں کی گفتگو سننے کے لیے خفیہ آلات لگائے ہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے فلسطینی قیدیوں اور جیل محافظوں کے مابین شدید تناؤ پیدا ہوا جس کے بعد متعدد جیل گارڈز نے حماس کے قیدیوں پر حملہ کیا۔
یادرہے کہ فلسطین کی خبر رساں ایجنسی وفا نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ یروشلم میں قابض حکومت کی جیلوں میں اب بھی 450 فلسطینی قیدی قیدہیں ، جن میں 140 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں،ادھر اوسلو معاہدوں پر دستخط کرنے سے قبل حراست میں لئے گئے سابق قیدیوں اور حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد 25 ہے جن میں سب سے قدیم کریم یونس اور مہر یونس ہیں ، جو 1983 سے نظربند ہیں۔
اس کے علاوہ ، ہم ان فلسطینی قیدیوں کا بھی ذکر کر سکتے ہیں جنھیں "آزادہونے والے قیدیوں سے وفاداری” کے نام سے دوطرفہ معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا لیکن صیہونی حکومت نے پھر انھیں حراست میں لیا ، جن میں سب سے نمایاں "نائل البرغوثی” ہیں جنہوں نے اسرائیلی جیلوں میں بہت لمبا عرصہ گذارا ہے جس کی مدت مجموعی طور پر 41 سال ہے جس میں سے انہوں نے مسلسل 34 سال جیل میں گزارے،اسرائیلی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ نیتن یاھو خفیہ کابینہ تشکیل دے رہے ہیں اور حکومتی اداروں کے ڈھانچے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔