سچ خبریں:صہیونیوں نے جنگ کے پہلے ہفتے میں نہ صرف کچھ حاصل نہیں کیا ہے بلکہ ہوائی اڈے کھلتے ہی ہزاورں شہری مقبوضہ فلسطین سے فرار ہونے کو تیار ہیں جبکہ جنگ بندی کے لئے بے چین تل ابیب اپنی ہلاکتوں کو سنسر کر رہا ہے تاکہ اس جنگ کے خاتمے کو روک سکے۔
عرب دنیا کےمعروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے رائ الیوم اخبار میں لکھا ہےفلسطینی مزاحمتی گروپ صہیونی شہروں اور قصبوں پر راکٹ فائر کررہے ہیں، آسان الفاظ میں اس کا مطلب اسرائیل کی شکست اور فلسطین کی فتح ہے خاص طور پر چونکہ اس حکومت کے سیاسی و عسکری رہنما اپنی فکر مند اور خوف زدہ رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے اور موجودہ جنگ کے خاتمے کا کم سے کم تاوان دے کر اس بحران نے باہر نکلنے کے لیے ہر طرح سے ایک فوجی کارنامے کی تلاش میں ہیں۔
تجزیہ کار نے مزید کہاکہ اب تک اسرائیل کےمتعدد ٹھکانوں اور بڑے شہروں پر 3000 میزائل داغے جا چکے ہیں جو پچھلی جنگ کےمیزائلوں سے بالکل مختلف ہیں جو وار ہیڈز اور درستگی کے لحاظ سےان سے بہت آگے ہیں نیز آئرن گنبد سے گزرتے ہوئےمقبوضہ فلسطین میں اپنے مقاصدکو حاصل کرنے میں کامیاب ہیں،انہوں نے لکھاکہ القدس میزائل انتفاضہ نے مفاہمت کرنے والے ممالک اور” ابراہام "معاہدوں پر دستخط کرنے والوں کے لئے دسیوں اربوں ڈالر کی بچت کی ہے کیونکہ وہ دسیوں آئرن گنبد سسٹم اور ان کے میزائل خریدنے والے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یمن میں انصاراللہ میزائلوں کے خلاف امریکی پیٹریاٹ سسٹم کی ناکامی کے بعد صیہونی وزیر اعظم اور اس حکومت کے جرنیلوں کے دھوکے میں آنے والے تھے کہ آئرن گنبد کے نظام میں ان کی حمایت کرنے کی زیادہ سے زیادہ طاقت ہے،انہوں نے مزید کہاکہ اسرائیلی فوج نے جنگ کے پہلے سات دنوں میں بے قصور لوگوں کو ہلاک کرنے اور رہائشی عمارتوں الجلاء ٹاور ، صحافیوں کا صدر دفترکو تباہ کرنے یا حماس اور اسلامی جہاد کے دو کمانڈروں کے قتل کو کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا ہے ، وہ کبھی بھی جوائنٹ آپریشن روم اور میزائل پلیٹ فارمز اور ورکشاپس اور ان کے سربراہان مزاحمتی تحریک کےفوجی کمانڈروں نہیں پہنچ سکا ہے جس کی وجہ سے صہیونیوں کی مایوسی اور الجھن میں شدت آگئی ہے جو رہائشی مکانات کو نشانہ بنانے کا باعث بنی ہے جو ان کی ناکامی ان کی سابقہ غلطیوں میں اضافہ کرتی ہے۔
عطوان نے مزید لکھا ہے کہ اس وقت مقبوضہ فلسطین کی صورتحال مکمل طور پر مفلوج ہوچکی ہے اور یہ اسرائیلی معیشت کو ایک مہلک دھچکا ہے جو ابھی تک کورونا کے اثرات سے باز آور نہیں ہوسکا ہے اور اس کا عملی نتیجہ یہودی اور مغربی کنبوں کی اس کے دارالحکومت سے واپسی میں اضافہ ہے،عرب تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ2001 میں دوسرے مسلح انتفاضہ میں ، لگ بھگ 90 کمپنیاں اسرائیل سے لندن اور نیو یارک چلی گئیں ، اور اسرائیلی سیاحت کی صنعت مکمل طور پر ختم ہوگئی جبکہ اسپورٹس ٹیمیں عدم تحفظ کی وجہ سے تل ابیب میں کھیلنےکے لیے تیار نہیں ہوئیں،یہ اس وقت کے منظرنامے تھے اس وقت بھی اگر جنگ بندی ہو جاتی ہے توانھیں کودہرایا جائے گا۔
عطوان کا کہنا ہے کہ صیہونی ہوائی اڈے کھلتے ہی ہزاروں افراد اسرائیل چھوڑنے کے لئے اپنے سامان پیک کر رہے ہیں۔