سچ خبریں:بین الاقوامی معاہدوں میں کہا گیا ہے کہ زیر حراست افراد کو غیر ضروری عوامی تذلیل کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے ۔
وہ تصاویر جن میں غزہ میں گرفتار افراد کو ہاتھ اور آنکھیں بند کرکے برہنہ دیکھا جاتا ہے، صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ تصاویر ان مردوں کی طرف سے شائع کی گئی ہیں جو اب بھی اسرائیلی فوج کے سرکاری فوجی ہیں یا ویڈیو کی ریکارڈنگ کے وقت سرکاری طور پر اس ملکی فوج کی خدمت میں تھے۔ غور طلب ہے کہ انہوں نے ان ویڈیوز میں اپنی شناخت نہیں چھپائی۔ اسی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حراست میں لیے گئے شخص کو تفتیش کے بعد ننگے پاؤں غزہ کی سڑکوں پر لے جایا جاتا ہے، جو کہ تیسرے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 13 کے بھی خلاف ہے، جس میں جنگی قوانین کی بات کی گئی ہے۔ قیدیوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، خاص طور پر تشدد، دھمکی، توہین اور عوام کے سامنے آنے سے۔
اس گھناؤنے جرم کا پردہ فاش کرتے ہوئے اسی طرح کی کارروائی فلسطینی قیدیوں کے خلاف کی گئی تھی۔ دسمبر کے آخر میں صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کے شمال میں جبالیہ اور بیت لاہیا کے علاقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کی اسیری کی ویڈیوز اور تصاویر شائع کی گئیں۔ جن قیدیوں کے بارے میں صیہونیوں کا دعویٰ ہے وہ ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ان تصاویر کے مطابق صیہونی حکومت کے فوجیوں نے قیدیوں کو برہنہ کرکے داعش کے انداز میں زمین پر لٹا دیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لوگ حماس کے فوجی تھے جنہیں گرفتار کر کے جسمانی معائنہ کے لیے چھین لیا گیا تھا، تاہم حال ہی میں شائع ہونے والی ویڈیوز نے حکومت کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا اور ظاہر کیا کہ یہ لوگ عام شہری تھے جنہیں اسلحہ دیا گیا اور ان سے چھین لیا گیا۔