سچ خبریں: لبنان کے ساتھ حزب اللہ اور اسرائیل کے معاہدے کے کمزور ہونے کے سائے میں شامی صدر کو ایک غیر متوقع خطرے کا سامنا ہے۔
اس عبرانی میڈیا کے مطابق ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی اہلکار نے شامی حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اس نے حزب اللہ کو امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دی تو اسے بھاری اور براہ راست قیمت چکانی پڑے گی، اور اسی کے آخر میں۔ ہفتے، شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے آپ کو ایک پرانے خطرے سے روبرو پایا، جو سنی انتہا پسند گروہوں کے عروج کو دیکھنے کے لیے دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔
اگرچہ صورت حال کا چہرہ ابھی تک پوری طرح سے متعین نہیں ہوسکا ہے لیکن بظاہر شام کے سب سے بڑے شہر اور اس ملک کے اقتصادی مرکز کے طور پر حلب شہر پر قبضے کے بعد بشار الاسد کی حکومت کو 2015 کے بعد سب سے بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑا، جب ایران اور روس نے اس ملک میں خانہ جنگی کے خطرات کو بے اثر کیا تو اس کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ذرائع ابلاغ کے مطابق شام حزب اللہ کی حمایت میں رکاوٹ بن گیا ہے اور ساتھ ہی لبنان کی سرحد کے قریب مزاحمتی محور سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروپوں کی موجودگی اور قیام فراہم کر رہا ہے، ان کی تنصیبات اور اجتماعی مراکز کے خلاف مسلسل اسرائیلی فضائی حملوں کے باوجود۔ افواج اور تربیتی اڈے، جن میں بشار الاسد کا آغاز ہوا ہے، اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں شامی امور کے ماہر محقق پروفیسر ایال زیسر نے زیمان اسرائیل کو بتایا کہ اسد برسوں سے اسرائیل کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن ہم دس سال سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ایک کمزور اسد اسرائیل کے لیے بہتر ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ۔ اس نے حزب اللہ کو اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی میں بہت مدد فراہم کی ہے اور شام سے حزب اللہ کو بہت سے ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں، اسد درحقیقت اس محور کی مربوط کڑی ہے۔