سچ خبریں:لبنان کے مشہور سیاسی تجزیہ کار وسیم بزی نے روسی صدر کے دورۂ تہران کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے امریکی یکطرفہ سیاست کے تابوت میں کیل قرار دیا۔
لبنان کے مشہور سیاسی تجزیہ کار وسیم بزی نے کہا کہ میرے خیال میں یہ دورہ اپنے اندر بہت سے جیوپولیٹکل اور اسٹریٹجک پیغامات لئے ہوئے تھا، خاص طور پر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ گزشتہ سات سالوں میں پیوٹن کی آیت اللہ خامنہ ای سے یہ تیسری ملاقات ہے، یقینا یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب دنیا کی صورتحال انتہائی حساس ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ایران، چین اور روس کے سہ فریقی اتحاد کو پہلے سے بڑھ کر تقویت ملی ہے اور خطے میں امریکہ کی یکطرفہ سیاست کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔
واضح رہے کہ یہ دورہ ایسے حالات میں انجام پایا ہے کہ جب روس اور صہیونی حکومت کے تعلقات ایک خاموش بحران کی آزمائش سے گزر رہے ہیں، یاد رہے کہ صہیونی حکومت نے یوکرین جنگ میں روس کے برخلاف متخاصم کیمپ کی جانبداری کی ہے اور حسب سابق یوکرین کی افواج کو اپنی امداد جاری رکھے ہوئے ہے، یہ مسائل سبب بنے ہیں کہ ماسکو کے تل ابیب کے ساتھ تعلقات میں سردی آنے کی وجوہات تیزی کے ساتھ بڑھ جائیں اور یہی مسائل ایران اور روس کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوئے اور ان کے مضبوط ہونے کا باعث بنے ہیں۔
میرے خیال میں سید حسن نصر اللہ کا حالیہ خطاب در حقیقت ان کے دو صہیونی فوجیوں کو قیدی بنانے کے بعد ١۲ جولائی ۲۰۰٦ میں کئے جانے والے خطاب کی طرح ایک تاریخ ساز خطاب تھا کہ جو ہر قسم کے فیصلے کا آخری معیار قرار پاسکتا ہے۔ ہم نے ١٦ سال کے فاصلے کے ساتھ سید حسن نصر اللہ کی جانب سے ایک اور خطاب دیکھا کہ عسکری توازن کو معین کرنے والا اور البتہ سرنوشت ساز تھا۔