سچ خبریں: 7 جولائی کو حماس کے عرب اور اسلامی تعلقات کے دفتر کے سربراہ خلیل الحیہ نے اخبار الاخبار کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں وضاحت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تحریک استقامت دمشق
کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
آناتولی کی رپورٹ کے مطابق کل مختلف اداروں اور مراکز سے وابستہ آٹھ علماء نے تحریک حماس سے کہا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
اسی سلسلے میں یمن کی تحریک انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے رکن محمد البخیتی نے اپنے ٹویٹر پر لکھا کہ شام اور حماس کے درمیان تعلقات کی واپسی پر میں اپنی خوشی کو بیان نہیں کر سکتا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طویل عرصے سے اس اقدام کی مذمت کرنے والے علماء کرام جب ترکی کے سفارتی تعلقات برقرار رکھتے ہیں تو اسرائیل کے ساتھ دوبارہ شروع ہونے پر خاموش کیوں ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بغاوت کے حق میں ہیں اور جو چیز اسرائیل کو پریشان کرتی ہے وہ انہیں بھی پریشان کرتی ہے۔
اس کے چند گھنٹے بعد انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ برطانیہ فلسطین پر قبضہ کرنے اور بالفور معاہدے پر عمل درآمد کرنے سے باز نہیں آیا بلکہ برطانوی انٹیلی جنس نے ایک اسلامی گروپ بنایا جس کا مقصد خطے میں صہیونی منصوبے کی استقامت کرنے والوں سے لے کر بائیں بازو اور قوم پرستوں تک کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ علماء اردوغان کی مذمت کیوں نہیں کرتے جب انہوں نے صیہونی حکومت کے سربراہ کا استقبال کیا؟