سچ خبریں: بین الاقوامی امور کے ماہر ابوالفضل ظہرہ وند پیر 12 جنوری کو پنج سیما اسٹوڈیو میں سلام تہران پروگرام کے میزبان سے بات کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ابوالفضل ظہرہ وند نے حاج قاسم سلیمانی کے سفارتی علم کے بارے میں کہا کہ میری زندگی کے اچھے حصوں میں سے ایک حاج قاسم سلیمانی کو جاننا تھا۔ 1977 یا 1978 میں سردار سلیمانی نے مسٹر واحدی کی جگہ قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا اور اس وقت میں خاص طور پر افغانستان میں کام کر رہے تھے۔ اس وقت قدس کور کے کام کا بڑا حصہ افغانستان میں تشکیل پا چکا تھا۔ حاج قاسم سلیمانی نے بیک وقت افغانستان کا کام سنبھالا اور سفارت کاری کے میدان میں قدم رکھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں امن اور شیعہ اتحاد کے معاملے پر بھی کام کر رہا تھا اور حاج قاسم متحدہ محاذ کی حمایت پر کام کر رہے تھے۔ ان سالوں میں طالبان نے افغانستان کا 90% حصہ لے لیا تھا اور اس ملک کے شمال مشرق میں صرف 10% رہ گئے تھے۔ اس موقع پر حاجی قاسم سلیمانی نے محاذ کی حمایت کرنے اور طالبان کے ہاتھوں افغان حکومت کے زوال کو روکنے کی کوشش کی۔ اس کام کی کمان وزارت خارجہ کے سیاسی نائب کے پاس تھی۔ کسی وقت، رجحانات اس مقام پر پہنچ گئے جہاں ہماری توقعات پوری نہ ہوئیں اور امریکی افغانستان میں تعینات رہے۔ یہ مسئلہ حاج قاسم کی سرگرمیوں میں ایک اہم موڑ بن گیا۔
ظہرہ وند نے اس وقت حاج قاسم کی خصوصیات کے بارے میں کہا کہ ایک اچھا کمانڈر وہ ہوتا ہے جو ایک اچھا سپاہی ہو جب حاج قاسم سلیمانی کو کچھ کرنا تھا تو انہوں نے اس وقت وزارت خارجہ کے سیاسی نائب کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کیا۔ چونکہ اقدامات کا نتیجہ اس طرح نہیں نکلا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا اس لیے سپریم لیڈر کے حکم پر حاج قاسم سلیمانی نے ملک کے مغربی علاقے میں براہ راست کمان سنبھالی یہ مسئلہ حاج قاسم کی زندگی اور خارجہ پالیسی کے تجربے کا اہم موڑ تھا۔