سچ خبریں: برطانوی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس ملک نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایک مربوط کاروائی میں حماس اور جہاد اسلامی کے عہدیداروں اور اسپانسرز کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
قدس آن لائن کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملک نے حماس سے وابستہ 7 دیگر ارکان پر اس تنظیم کی جانب سے لاحق خطرے سے نمٹنے، مالی وسائل تک رسائی منقطع کرنے اور اس سے وابستہ افراد پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں
یہ بھی پڑھیں: غزہ پر ڈھائے گئے ظلم و ستم میں امریکہ اسرائیل کا شریک
بیان میں مزید کہا گیا کہ آج کی کاروائی، امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد سے حماس سے منسلک شخصیات کے خلاف برطانیہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا دوسرا دور ہے۔
برطانوی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک محمود الزہار اور اس تحریک کی کمان کے ایک سینئر رکن علی برکہ بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہیں آج کی پابندیوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
برطانوی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ یہ سخت اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ حماس سے وابستہ لوگ احتساب سے نہیں بچ سکتے چاہے وہ غزہ کے باہر سے کام کریں۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اس بیان میں دعویٰ کیا کہ غزہ میں حماس کا مستقبل نہیں ہو سکتا،حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف آج کی پابندیاں ان کی مالی وسائل تک رسائی کو منقطع کر دیں گی اور انہیں مزید الگ تھلگ کر دیں گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم طویل مدتی سیاسی حل کے حصول کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے تاکہ اسرائیلی اور فلسطینی امن کے ساتھ رہ سکیں۔
مزید پڑھیں: امریکہ اور یورپ غزہ کے لوگوں کے قتل عام میں شریک
انگلینڈ کی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق پابندی عائد کیے جانے والے شدہ افراد اور اداروں کے اس ملک میں اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور برطانوی کمپنیوں اور شہریوں کو ان کے ساتھ مالی لین دین سے روک دیا گیا ہے نیز ان افراد کو انگلینڈ میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے اور اس ملک میں ان کا داخلہ یا یہاں سے گزرنا ممنوع ہے۔