سچ خبریں:نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں سابق برطانوی سفیر سر ایڈم تھامسن نے اپنی ذاتی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک کالم میں قفقاز خصوصا آذربائیجان کی حالیہ صورتحال نیز نیٹو اور دیگرمغربی ممالک کی ممکنہ حکمت عملی کا ذکر کیا،اس کالم کا عنوان بحیرہ کاسپین کے کنارے نیٹو کا میٹھا خواب ہے۔
نیٹو میں سابق برطانوی سفیر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ 2020 کی آرمینیا-آذربائیجان جنگ 10 نومبر کو نیٹو کے ارکان کی غفلت اور روس کے مفادات میں ماسکو کی موقع پرستی کے ساتھ ختم ہوئی اور غیر واضح معاہدوں کی بنیاد پر ایک غیر مستحکم امن قائم ہوا, تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 243/62 کے مطابق کاراباخ کو زبردستی آذربائیجان کے حوالے کر دیا گیا۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد بھی نسلی بدامنی اور علاقائی جنگ کا سایہ جنوبی قفقاز پر چھایا ہوا ہے،جنوبی قفقاز میں روسی اور ترک فوجی موجودگی کی توسیع اور امن کی سرپرستی میں ماسکو اور انقرہ کی طرف سے ناگورنو کاراباخ میں ایک نئے فوجی اڈے کے قیام کے ساتھ خطے میں سکیورٹی توازن پریشان ہے۔
برطانوی سفیر میں لکھا ہے کہ پائیدار بین الاقوامی امن کے محافظ کی حیثیت سے نیٹو ہمیشہ روس کے ساتھ اختلافات کا شکار رہا ہےجبکہ آذربائیجان نے نیٹو کے ساتھ انفرادی شراکت برائے امن کی شکل میں ایک آپریشن شروع کیا ہے،یادرہے کہ نیٹو کی جانب سے ترکی نے آذربائیجان کے فوجی ڈھانچے اور آلات کو نیٹو کے معیار کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا ہے،واضح رہے کہ اگرچہ باکو ابھی تک نیٹو کا رکن نہیں ہے ، تاہم یہ خطے میں نیٹو کے سنجیدہ اتحادیوں میں سے ایک کے طور پر بہت اہم ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جنوبی قفقاز میں روس کی براہ راست شمولیت ، نیٹو کے لیے ناقابل قبول ہو گی،نیٹو کی نگرانی میں آذربائیجانی فوج کو منظم کرنے کے لیے ترکی کی کوششیں قابل تحسین ہیں، ترکی کا آذربائیجان سے علاقائی رابطہ بحیرہ کاسپین کے ساحل سے نیٹو کے علاقائی رابطے کی طرح ہوگا ، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو 15 سالوں سے ترکی اور نیٹو کے ایجنڈے پر ہےجبکہ زمینی طور پر کاسپین ساحل پر علاقائی توسیع اور نیٹو کی تعیناتی ہمیشہ نیٹو کی ناقابل رسائی حکمت عملی کا حصہ رہی ہے۔