سچ خبریں:ایسوسی ایٹڈ پریس اور وال سٹریٹ جرنل نے امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پینٹاگون جلد ہی خلیج فارس میں تجارتی بحری جہازوں پر مسلح میرینز تعینات کرنے کی پیشکش کرے گا ۔
اس رپورٹ کے مطابق؛ امریکہ ان فوجیوں کو ان تجارتی بحری جہازوں پر تعینات کر سکتا ہے جو ایرانی فوج کے لیے خطرہ ہیں، خاص طور پر آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہاز۔
اس سے قبل مغربی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس منصوبے کے مطابق ہزاروں امریکی میرینز اور ملاح حملہ آور بحری جہاز بٹن اور کارٹر ہل کے ساتھ خلیج فارس کے راستے پر ہیں، جو 10 جولائی کو ورجینیا کی ایک بندرگاہ سے روانہ ہوئے تھے۔
امریکہ نے اس سے قبل تھومس ہوڈر ڈسٹرائر اور دیگر بحری جہازوں کے علاوہ کئی A-10، Thunderbolt 2، F-16 اور F-35 جنگجو بھی خطے میں بھیجے تھے۔
میڈیا کی یہ تخلیقات اپنے اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کو ظاہر کرنے کے مقصد سے ہوتی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا ٹریک ریکارڈ، افغانستان اور عراق میں جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی اور خلیج فارس میں اس ملک کی شر انگیز کارروائیوں جیسے ریکارڈ کے مطابق۔ جس میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے میں ان کی موجودگی نے نہ صرف کبھی تحفظ پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے لاتعداد متاثرین کو چھوڑا ہے۔
واضح طور پر بیان کرنا؛ خطے میں امریکی فوجی موجودگی کو بڑھانے کے منصوبے کا تعلق اس ملک کی مرضی سے نہیں ہو سکتا تاکہ خطے میں سلامتی پیدا ہو، لیکن اس نئی حکمت عملی کو بعض اوقات متضاد میڈیا کے تبصروں سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے۔
دوسری جانب ان پیش رفت کے ساتھ ہی اور گذشتہ جمعرات کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ سعودی عرب کے بعد، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاملہ ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جوبائیڈن کی پرامید بھی۔
اس بارے میں صیہونی حکومت کے مرکز میں ایک نئے سیکورٹی آرڈر کے قیام کی عمومی تصویر بنا کر مغربی ذرائع ابلاغ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نئے حکم کی بنیادی شرط ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔